Maktaba Wahhabi

361 - 822
امیر المومنین‘‘ رکھا۔ [1] (قحط سالی کے ایام میں) مصر کے گورنر نے اس راستے سے مدینہ اور مکہ تک غلہ بھجوایا، اور اللہ تعالیٰ نے اس خلیج کے ذریعہ سے حرمین کے باشندوں کو بہت فائدہ پہنچایا، پھر ہمیشہ اسی راستے سے حرمین تک غلہ وغیرہ پہنچایا جاتا رہا، یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے دور تک یہی راستہ اختیار کیا، لیکن آپ کے بعد امراء وحکام نے یہ راستہ چھوڑ دیا، اور کھاڑی ریت سے بھر گئی اور بحر قلزم کی طرف سے ذنب التمساح تک آکر یہ خلیج ختم ہوگئی۔ [2] عراق کے نشیبی علاقہ سے بصرہ تک تین فرسخ کی لمبائی میں آپ نے نہر کھدوائی تاکہ دجلہ کا پانی بصرہ تک پہنچایا جاسکے۔ [3] عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں نہریں کھودنے، کھاڑیاں تیار کرنے، سٹرکیں، پل، اور سرحدیں بنانے میں ملک کا بہت بڑا بجٹ خرچ ہوتا تھا۔ [4] سرحدوں پر شہروں کی تعمیر فوجی اور تمدنی مراکز کے طور پر: عہد فاروقی میں فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ اسلامی ریاست نے اپنی سرحدوں پر چھوٹے چھوٹے شہر بسائے، مواصلات وروابط کے راستوں کو آسان کیا، زمینوں کی اصلاح کی، اور لوگوں کو رغبت دلائی کہ ہجرت کرکے جہادی مراکز کے پاس سکونت اختیار کریں، اسلام کی نشرو اشاعت اور مجاہدین کو نفری قوت وسامان جنگ پہنچانے کے لیے مفتوحہ شہروں کی طرف منتقل ہوجائیں۔ اس دوران میں جو سب سے اہم شہر بسائے گئے، [5] وہ بصرہ، کوفہ، موصل، فسطاط، جیزہ اور سرت تھے۔[6]اسلامی افواج کے قبائل اور جھنڈوں کے اعتبار سے مکانات تیار کیے گئے اور ان شہروں کی منصوبہ بندی اور توزیع لشکر اسلام کے قبائل اور بٹالین کے اعتبار سے کی گئی۔ نیز ان شہروں میں رفاہ عام کی تعمیرات مثلاً مسجدیں اور بازار بھی بنائے گئے، ہر شہر کے لیے ایک چراگاہ بنائی گئی جس میں مجاہدین کے گھوڑے اور اونٹ چرسکیں۔ آپ نے لوگوں کو رغبت دلائی کہ وہ اپنے بال بچوں کو لے کر حجاز کے شہروں اور جزیرہ عرب کے دور دراز علاقوں کو چھوڑ کر ان شہروں میں آباد ہوجائیں تاکہ یہ شہر فوجی اڈوں کا کام کریں، یہاں مجاہدین کا لشکر تیا رکیا جائے اور اسے مدد بہم پہنچائی جائے تاکہ وہ دشمن کی سرزمین میں اندر تک گھس جائیں اور وہاں اسلام کی دعوت دیں، آپ نے ان شہروں کا خاکہ تیار کرتے وقت فوجی کمانڈروں کو حکم دیا تھا کہ دارالحکومت سے ان شہروں تک بہترین سٹرک تیار کی جائے، درمیان میں سمندر ودریا حائل نہ ہوں، اس لیے کہ
Flag Counter