Maktaba Wahhabi

201 - 822
ہے، وہ خلفائے راشدین کے دور میں نہایت خوش گوار وروشن شکل میں باقی رہے اور اس کی چمک دمک ہر دور کے چہرے پر دیکھی گئی۔ [1] خلیفہ کے اخراجات، ہجری تاریخ کا آغاز اور ’’امیر المومنین‘‘ کا لقب: خلافت ایک شرعی اور نیکی کا کام ہے جس سے اللہ کی رضامندی مقصود ہوتی ہے۔ جو اس منصب پر فائز ہوتا ہے اور اچھے ڈھنگ سے اسے چلاتا ہے، اس کے لیے ثواب کی امید کرتا ہے کہ اللہ کے پاس اسے اس کا بہتر بدلہ ملے گا، کیونکہ وہ احسان کرنے والوں کو ان کے احسان کا اور برائی کرنے والوں کو ان کی برائی کا بدلہ دیتا ہے۔ [2] اللہ کا ارشاد ہے: فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ (الأنبیاء:۹۴) ’’پس جو شخص کوئی نیک اعمال کرے اور وہ مومن ہو تو اس کی کوشش کی کوئی نا قدری نہیں اور یقینا ہم اس کے لیے لکھنے والے ہیں۔‘‘ یہ تو اس کا اخروی بدلہ ہے، البتہ دنیوی بدلہ، چونکہ خلیفہ امت کے بہترین مفاد میں اپنے منافع کو نہیں لیتا اور اس کے حق میں اپنی پوری ذمہ داری نبھاتا ہے، لہٰذا اسے بدلہ لینے کا پورا حق ہے، کیونکہ جب منافع روک دیا جائے تو وہ مقابل میں دو عوض کا مستحق ہوتا ہے۔ [3] اور یہ فقہی قاعدہ ہے کہ ’’ کُلُّ مَحْبُوْسٍ لِمَنْفَعَۃِ غَیْرِہٖ یَلْزِمُہُ نَفَقُتْہُ کَمُفْتٍ وَقَاضٍ وَوَالٍ۔‘‘[4] ’’جو دوسرے کی منفعت کی خاطر اپنے آپ کو وقف کر دے تو وہ اپنے اخراجات وصول کرنے کا حق دار ہے، جیسے کہ مفتی، قاضی اور حکمران وغیرہ۔‘‘ مناصب وذمہ داریاں اٹھانے کے عوض تنخواہ لینا شرعاً جائز ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو گورنر بنایا ان کو تنخواہیں دیں۔ [5] سیّدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جب عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ بنائے گئے تو کافی دنوں تک آپ نے بیت المال سے کچھ نہ لیا، یہاں تک کہ آپ کو کافی تنگی کا سامنا کرنا پڑا، رعایا کے کاموں میں مشغول ہونے کی وجہ سے آپ کی تجارت کی آمدنی بھی کم ہوگئی۔ اس وقت آپ نے صحابہ کرام کو بلوایا اور ان سے اس سلسلہ میں مشورہ
Flag Counter