Maktaba Wahhabi

614 - 822
کہ اہل صلح پر ظلم وستم کر کے دشمن پر فتح پانے کے طالب نہ رہو، جاسوسی کے لیے مفتوحہ علاقوں کے صرف انہی لوگوں سے مدد لو جن پر تم کو کامل اعتماد ہو، دوسرے لفظوں میں یہ کہ مطلق بھروسا کرنے سے احتیاط برتو۔ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے متعلق ضرورت سے زیادہ حسن ظن کے نتیجے میں تمہیں نقصان اٹھانا پڑے۔ : چوتھا اصول:… دشمن کے بارے میں پوری معلومات اکٹھی کر لینی چاہئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے معلومات فراہم کرنے کا کام ان ہراول دستوں کے سپرد کرنے کی ہدایت کی جو اسلامی لشکر کے اہم اور بہترین افراد پر مشتمل ہوں اور وہ لشکر کے کامیاب ترین اسلحہ سے لیس ہوں، کیونکہ یہ اندیشہ رہتا ہے کہ دشمن کو ان کا سراغ لگ جائے اور پھر وہ انہیں قتال پر مجبور کر دے۔ ایسے وقت میں ضروری ہو جاتا ہے کہ قوت اور ہتھیار کا مرعوب کن مظاہرہ ہو، تاکہ دشمن کو قوت کا احساس ہو جائے اور وہ مرعوب ہو کر بغلیں جھانکنے کی تلاش میں لگ جائے۔ : پانچواں اصول:… جو شخص جس کام کے لیے مناسب ہو اسے وہیں استعمال کرنا چاہیے اور یہ کہ دشمن کے بارے میں معلومات جمع کرنے کا واحد مقصد یہ نہ ہو کہ جلد از جلد جنگ کی جائے، بلکہ پوری کوشش ہو کہ فریق ثانی کو مسلمانوں کے خلاف جنگ سے دور رکھا جائے، چنانچہ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اسباب جنگ مہیا کر لینے کے بعد حتی المقدور جنگی کارروائی سے بچنے کی کوشش کریں اور مزید تیاریوں میں لگے رہیں۔ البتہ ہمیشہ محتاط اور دشمن سے چاق چوبند رہیں۔[1] ۶: ارتداد سے سچی توبہ کرنے والوں سے استعانت: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ ارتداد اور دوسری کسی بھی فتوحات میں کبھی کسی مرتد سے مدد نہیں لی، لیکن سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کو جب ان کی سچی توبہ کا یقین ہوگیا، ان کا ظاہر درست ہوگیا اور اسلامی تربیت سے بہرہ مند ہوگئے تو آپ نے انہیں کاروان جہاد میں شرکت کا حکم دے دیا البتہ ان میں سے کسی کو بھی ذمہ دار نہیں بنایا۔[2] ایک روایت میں ہے کہ آپ نے طلیحہ بن خویلد اسدی اور عمرو بن معدیکرب زبیدی کے بارے میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو ہدایت دی تھی کہ ان سے مدد ضرور لو، لیکن کبھی سو آدمیوں پر ان کو امیر نہ بنانا۔[3]چنانچہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں خلفائے راشدین کی سنت سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے[4] کہ جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے اور پھر صدق دل سے توبہ کر لے تو اس کی توبہ مقبول ہے، اس کا خون اور مال معصوم ومحفوظ ہو گا، اسے وہ سارے حقوق ملیں گے جو ایک مسلمان کے ہوتے ہیں اور اس پر ان تمام چیزوں کی پابندی ضروری ہوگی جو دوسرے مسلمانوں پر عائد ہیں، البتہ وہ مسلمانوں کے کسی بھی اہم معاملے کا ذمہ دار نہیں بنایا جا سکتا۔ بالخصوص
Flag Counter