بسم اللّٰه الرحمن الرحيم ظہوُرِ قُدسی یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادَت با سَعادت حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے بعدارض وسماء کے رُوحانی تعلّق اور رشتۂ وحی کو منقطع ہوُئے کم وبیش چھ سَو سال گُزر چُکے تھے۔پُوری دُنیا بالعمُوم ا ور ملک وقومِ عرب بالخصوص کچھ اس طرح کے مذہبی،اخلاقی،معاشرتی اورسیاسی انحطاط سے دوچار تھی کہ پُورا عالمِ انسانیت ہی گھٹاٹوپ اندھیروں میں گھِر چکا تھا۔ انسان کا ضمیر مُرجھا چُکا تھا۔تاریکیوں نے ہر پہلُو سے بنی آدم کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور روشنی کی کوئی کِرن دُور دُورتک نظر نہیں آتی تھی۔ خالق ِکائنات،مالکِ ارض وسماء کو اپنی اس مخلوقِ انسانی کے حال پر ترس آگیا۔ رحمتِ الہٰی جوش میں آئی اور اس نے بھٹکی ہُوئی انسانیت کی رہنمائی کے لئے اولادِ ابراہیم خلیل اور نسلِ اسماعیل ذبیح علیہما لسّلام سے نبی آخرالزّمان رحمۃًلِّلْعالمین صلّی اﷲعلیہ وسلّم کو پَیدا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے اُس یومِ سعید کے بارے میں علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں: ’’چمنستانِ دَہر میں بار ہا روُح پروَر بہاریں آچکی ہیں۔چرخِ نادرئہ کارنے کبھی کبھی بزم ِعالم اس سرو سامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔لیکن آج(یعنی۹/ربیع الاوّل)کی |