بسم اللّٰه الرحمن الرحيم نگاہِ اوّلین اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہ‘ وَنَسْتَعِیْنُہ‘ وَنَسْتَغْفِرُہ‘،وَ نَعُوْذُ بِا للّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَا لِنَا، مِنْ یَّھْدِہٖ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہ‘،وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہ‘، وَاَشْھَدُ اَنْ لَّا إِلٰہَ اِلاَّ اللّٰهُ وَ اَشْھَدُ أَ نَّ مُحَّدَاً عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہ‘۔ اَمَّا بَعْدُ: قاَرئین ِ کرام! السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُاللّٰہِ وَ بَرکَا تُہ‘: ہرسال ماہ ربیع الاول کی آمد پر اسلامیانِ بر صغیر میں ایک بحث چھڑ جاتی ہے کہ عید میلاد النّبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جشن وغیرہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اور اسکے ساتھ ہی ایک دوسری قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کس تاریخ کو ہوئی؟ زیر نظر کتابچہ میں انہی دونوں سوالوں کا مدلّل جواب دیا گیا ہے،دراصل تو یہ ہماری چند ریڈیائی تقاریر ہیں جو ریڈیو متحدہ عرب امارات أم القیوین کی اردو سروس سے کئی مرتبہ نشر ہوئیں۔اور یہی موضوع ہماری کتاب ’’سیرۃ امام الانبیاء‘‘اور ’’قبولیتِ عمل کی شرائط‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔اور متعدد جماعتی پرچوں میں بھی قسط وار شائع ہوا ہے۔اب ہم اسے الگ مستقل رسالے کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے،اس توفیق پر شکر گزار ہیں۔اور دعاء گو ہیں کہ اسے شرفِ قبول سے نوازے اور پھر اپنے احباب میں سے حافظ ارشاد الحق صاحب( فاضل،مدینہ یوینورسٹی،مقیم الذید شارجہ) کے بھی ممنون ہیں کہ انھوں نے تقاریر کے اسکرپٹس کو مسلسل تحریر کی شکل میں منتقل |