اس میلاد کے جواز کا فتویٰ سب سے پہلے مَلک مظفر کے عہد کے ایک مولوی شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ نے ایک رسالے ’’ التنویرفی مولد البشیر النذیر‘‘ میں دیا۔ جس کی تالیف پر اسے ملک مظفر نے ایک ہزار دینار انعام دیا تھا۔ [1] اور اس مولوی ’’ابن دحیہ‘‘ کو کبار علمائِ حدیث نے کذّاب،ناقابلِ اعتبار،غیر صحیح النسب، بے تُکی اور فضول باتیں کرنے والا قرار دیا ہے۔ جس کی تفصیلات البدایۃ والنہایۃ (۷/۱۳/۱۳۷) اور لسان المیزان(۴/۲۹۶-۲۹۷)میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایسے اوٹ پٹانگ مولوی کے فتوٰے کی جو حیثیت ہوسکتی ہے وہ ظاہر ہے۔اور پھر اس کے پیچھے مولویوں کی ایک بِھیڑ لگ گئی، اور متأخرین میلادیوں نے اس کے جواز کے جو دلائل دیئے ہیں ان کے ذکر اور ان پر بحث و تنقید کے لئے تو ایک طویل مقالہ درکار ہے۔ البتّہ یہاں محض اشاروں میں مختصراً عرض کر رہے ہیں۔مثلاً: 1۔اعتراض: کہا جاتا ہے کہ اگر میلاد بدعت ہے تو یہ بدعتِ حسنہ ہے۔اور اس کی کئی مثالیں سابق میں پائی گئی ہیں۔جیسا کہ نمازِ تراویح کی جماعت ہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو صرف تین دن با جماعت ثابت ہے۔ پھر عہدِ فاروقی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پورا مہینہ جماعت کا اجراء کیا اور با جماعت نماز ادا کرتے لوگوں کو دیکھ کر فرمایا: {نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھَذِہٖ۔} ’’ یہ اچھی بدعت ہے۔‘‘ اسی طرح ہی میلاد بھی ہے۔ |