2۔اعتراض: دوسری دلیل کے طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم پر اعراب نہیں تھے وہ حجاج بن یوسف ثقفی نے لگوائے۔پھر یہ عمل بھی بدعت ہؤا۔ 2۔جواب: جبکہ یہ محض مغالطہ اور غلط فہمی ہے۔ ورنہ اعرابِ قرآن ’’بدعت‘‘ کے ضمن میں ہرگز نہیں آتا۔ بلکہ یہ’’ مصالح مرسلہ‘‘ کے باب سے ہے،یعنی ’’دینی اُمور میں سے کسی حرج کو رفع کرنے اور کسی ضروری امر کی حفاظت کے لئے کوئی اقدام کرنا‘‘۔ بات دراصل یہ تھی کہ عہدِ حجاج میں دولتِ اسلامیہ بہت زیادہ پھیل گئی تھی اور عرب و عجم کا اختلاط اور باہم رشتہ داریاں ہورہی تھیں، جس کے نتیجہ میں لغتِ عربی میں کمزوری آنے لگی۔اور ’’لحن‘‘ عام ہوتاگیا۔ حتٰی کہ خود حجاج ایک فصیح و بلیغ عرب ہونے کے باوجود قرآن کریم کے بعض حُروف میں لحن(یعنی قواعد کی خلاف ورزی)کر جاتا تھا۔اور زیر والے حروف کوزَبر سے یا زَبر والے کو زیر سے پڑھ جاتا تھا۔ اور یحیٰ بن یعمر نے اس پر نکیر بھی کی تھی۔ [1] لہٰذا حفاظتِ تلفّظ کے لئے اعراب ضروری تھا۔ کیونکہ ’’جس چیز کے بغیر کوئی واجب ادا نہ کیا جاسکے، وہ بھی واجب ہوتی ہے‘‘۔ لہٰذا اعراب ِ قرآن کو قطعاً میلاد کے لئے بطورِ استدلال استعمال نہیں کیا جا سکتا،اور ان مصالح مرسلہ کی کئی دیگرمثالیں بھی موجود ہیں مثلاً:۔ جمع و تدوینِ قرآن،جو کہ عہدِ صدیقی و عثمانی میں عمل میں آئی،وہ بدعت کے قبیل سے ہر گز نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ حفاظتِ قرآن مسلمانوں پر واجب ہے۔ اور یہ امورِ کمالیات و تحسینات کے باب سے ہیں۔ |