5۔اعتراض: بعض قائلینِ مِیلا د تو اس حد تک جسارت کرجاتے اور کہہ دیتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے یومِ ولادت پر ایک مینڈھا بطورِ عقیقہ ذبح کیا کرتے تھے۔تو ہم لوگ کیوں نہ عید ِمیلاد منائیں۔ 5۔جواب: سب سے پہلے تو عقیقہ کا معنی سمجھ لیں۔ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو بچّے کی طرف سے ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہاگیا ہے کہ وہ کھانا جو بچّے کی ولادت کی خوشی میں پکا یا اور کھلایا جائے۔ وہ عقیقہ کہلاتا ہے۔ [1] اور ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک سنّت یہ ہے کہ بچّے کی پیدا ئش کے ساتویں دن ذبح کیا جائے اور تب نہ ہوسکے توچودھویں دن ہو یا پھر اکیّسویں دن۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے۔ [2] اور جو شخص بالغ ہوجائے اور اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو، اس میں اختلاف ہے کہ وہ اپنی طرف سے عقیقہ کرے یا نہیں ؟ بہر حال اگر جواز والوں کی بات ہی لے لی جائے تو عمر میں ایک مرتبہ عقیقہ کرنا ہوگا اورپھر ہمیشہ کے لئے یہ سِلسلہ ختم ہو جائے گا۔ چہ جائیکہ ہرسال عقیقہ کیا جائے اور کِسی قطعی طریق سے ہرگز ثابت نہیں کہ نبّوت ملنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بھی عقیقہ کیا ہو۔ کہاں ہر سال عقیقہ کا دعویٰ۔ اور جس روایت میں وارد ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبّوت ملنے کے بعد اپنی طرف سے |