عقیقہ کیا۔اس کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ یہ مسند بزار کی روایت صحیح ثابت نہیں ہے۔ اور خود امام بزار کا کہنا ہے کہ: یہ روایت بیان کرنے میں عبداﷲ اکیلا منفرد ہے۔ اور وہ ضعیف ہے۔ آگے فرماتے ہیں: امام عبدالرزّاق، صاحبُ المصنّف کا کہنا ہے کہ محدّثیں نے صرف اس روایت کے بیاں کرنے کی وجہ سے عبد اﷲبن محرّر سے روایت لینا ہی ترک کردیا۔ تو گویا اس روایت کے بیان کرنے نے عبداﷲبن محرّر کی ثقاہت ہی مٹادی تھی۔ لہٰذا اس سے کِسی قسم کا استدلال کیسے دُرست ہوسکتا ہو؟ [1] 6۔اعتراض: جبکہ اِسی سلسلہ میں ہی اُن کے بعض مُناظر لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے کیونکہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے۔اور پھر اسی سے عیدِ میلاد کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ 6۔جواب: عرض یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیر کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اُنہی احادیث میں جمعرات کے روزے کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ ابوداؤد، ترمذی، نسائی(وصححّہ ابن حبان) میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا کوشش کرکے روزہ رکھا کرتے تھے۔ جبکہ نسائی اور ابوداؤد( وصححّہ ابن خزیمہ) میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر بتایا کہ پیر اور جمعرات کوبندوں کے اعمال، اﷲ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اور میں یہ بات پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں اٹھائے جائیں کہ میں روزے سے ہوں۔ [2] |