اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کووہ سینتیس(۳۷) اُونٹ ذبح کرنے کے لئے دیئے گئے، جنہیں وہ یمن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لائے تھے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تریسٹھ(۶۳) اُونٹ ذبح کرنے کا کیامطلب ہے؟ توحقیقت یہ ہے کہ یہ سوال ہی لایعنی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے جو اُوپر ذکر ہوئی۔ (۴)بعض علماء کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تریسٹھ(۶۳)اُونٹ ذبح کرنا تو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ عمر ِشریف کے تریسٹھ(۶۳)سال پورے ہوگئے ہیں اور زیست کی انتہا ہوگئی ہے۔ اور واقعی حجۃالوداع کے موقع پر اس کی طرف اشارے بھی ہوگئے کہ اس حیاتِ مستعار کے خاتمے اور اس جہانِ فانی سے کوچ کا وقت قریب آگیا ہے۔ مثلاً:- یومِ عرفہ میں آیت(اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔۔)کا نزول‘ ایامِ تشریق میں سورۃ الفتح کا نزول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بار بار خطبات ارشاد فرمانا،اور خطبات میں اشارہ کرنا کہ شاید اس سال کے بعد ہم یہاں اکٹھے نہ ہوسکیں وغیرہ۔لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ اگر تریسٹھ سال کا عدد کسی بات کی دلیل ہے تو وہ صرف اس کی کہ تریسٹھ سال کی عمر مکمل ہوگئی ہے۔ اب ان سالوں میں کسی سال کا اضافہ نہیں ہوگا۔ نہ کہ یہ ابتدائے میلاد کی علامت تھا۔ کہا ں ابتداء اور کہاں انتہاء؟ 8۔اعتراض: عیدِ میلاد کا جواز ثابت کرنے کے لئے امام سیوطی(( اَلْمَعْرُوْفُ عِنْدَالْمُحَدِّثِیْنَ بِحَاطِبِ اللَّیْلِ یَعْنِی یَجْمَعُ بَیْنَ الشَّیْیٔ وَ ضِدِّہٖ))نے الحاوی فی الفتاوی میں ایک تاریخی روایت بیان کی ہے کہ: خواب میں کِسی( عباس بن عبدالمطلب) کو ابولہب ِخائب و خاسر مِلا اوراس نے بتایا کہ مجھے عذاب ہوتا رہتاہے سوائے اس کے کہ ہر پیر کی رات کو‘ اُس دن عذاب میں کچھ تخفیف ہوتی ہے۔ اور اپنی اُنگلیوں کے درمیان سے چند قطرے پانی بھی چوسنے کو ملتا ہے۔ اور یہ اس لئے کہ جب میری کنیز ثویبہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خبر دی تھی تو میں نے اُسے آزاد کر دیا |