تابعین،ائمہ مجتہدین حتیٰ کہ خود صاحبِ میلاد نے ایسے ہی اس نعمت کا شکریہ ادا کیا تھا؟اگر نہیں توپھر ہمیں اس کا حق کِس نے دیا؟ اور اگر اسی طرح شکرِ نعمت واجب ہے تب تو پھر کاروبارِ زیست ٹھپ کرنا پڑیں گے۔ تاکہ ہر روز جلوس وجشن کا اہتمام کیا جاسکے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا تو شمارہی مشکل ہے۔ جیساکہ سورۃالنحل آیت ۱۸ اور سورۂ ابراہیم آیت ۳۴ میں خود باری تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: {اِنْ تَعُدُّوْ انِعْمَۃَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْھَا} ’’اگرتم اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکوگے۔‘‘ اگر ذکر و شکرِ نعمت کا صحیح طریقہ اختیار کیا جائے، سنن رسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنایا جائے،تو پھر یہ ہر مسلمان ہر روز کرتا ہے۔ نہ کہ سال میں صرف ایک دن۔ فَلْیَتَدَبَّرْ۔ 4۔اعتراض: عید میلاد کے جواز کی دلیل کے طور پریہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یومِ عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس کا حکم بھی فرمایاتھا۔ اور چونکہ یہ دن مبارک تھا، اس دن کو یہُودی بھی روزہ رکھا کرتے تھے۔کیونکہ اس دن اﷲتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دلائی تھی۔اور ہمیں بالاولیٰ چاہیئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے بابرکت دن کا روزہ رکھیں۔ 4۔جواب: اندازہ فرمائیں کہ کتنی ٹیڑھی سوچ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توروزہ رکھا،اور اس کا حکم فرمایا۔ مگر آج کے میلادیئے روزہ رکھنے کی بجائے دستر خوان سجاتے،سبیلیں لگاتے، قوالیاں سُنتے اور بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ اَلْعِیَاذُ بِااللّٰهِ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھا،مگر اپنے یومِ ولادت کے بارے میں |