7۔اعتراض: ان کی ساتویں دلیل یہ ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں تریسٹھ اُونٹ اپنے دستِ مبارک سے ذبح کئے تھے۔بعض لوگ بڑی دور کی کوڑی لاتے اور اس سے عجیب نتیجہ نکالتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تریسٹھ اُونٹ ذبح کرنا اس بات کی علامت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سال کے بدلے میں بطورِعیدمیلاد ایک اُونٹ ذبح فرمایا۔ 7۔جواب: بدعت ساز اور بدعت نواز لوگ پہلے ایک چیز ایجاد کرتے ہیں اور پھر اسے ثابت کرنے کے لئے نصوص کا آپریشن کرکے انہیں اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی معاملہ یہاں بھی ہے۔جبکہ درحقیقت ان کی اس دلیل اور دلیل دینے والے میں کوئی ربط و تعلق نہیں ۔کیونکہ: (۱)معروف بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اُونٹ دس ذوالحج کو ذبح کئے تھے۔ جو کہ بارہواں مہینہ تھا۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ربیع الاوّل(۹یا ۱۲) کو ہے جوکہ اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ لہٰذا ان قربانیوں اور عیدِ میلاد میں کیا مناسبت ہے؟ (۲)اگر ان قربانیوں سے عیدِ میلاد کا جواز ثابت بھی کرنا ہو تو پھر عیدِ میلاد بھی دس ذوالحج کو ہی ہونی چاہیئے۔ نہ کہ ربیع الاوّل میں۔ (۳)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو(۱۰۰) اُونٹ کی قربانی دی تھی۔ان میں سے تریسٹھ(۶۳) اُونٹ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ مدینہ منوّرہ سے لائے تھے اور سینتیس(۳۷)اُونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے۔ اور شرح مسلم نووی(۸/۱۹۲)میں قاضی عیاض رحمہ اللہ کے بقول: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (۶۳)اُ ونٹ اپنے دستِ مبارک سے ذبح فرمائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لائے تھے۔جیسا کہ ترمذی شریف میں مذکور ہے: |