Maktaba Wahhabi

36 - 36
ہیں۔ پھر ہزاروں یتیم خانے اور رفاہی ادارے ہیں جن کا سالانہ بجٹ قربانی کی کھالوں سے مستحکم ہوتا ہے۔ پھر ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن کا ذریعہ معاش چمڑے کی رنگائی ہے۔ ذرا پوچھئے کہ ان کی معاش میں قربانی کی کتنی اہمیت ہے اور ان کی اقتصادی پوزیشن کے استحکام میں قربانی کو کتنا دخل ہے؟ پھر کتنے افراد وہ بھی ہیں جو ہڈی وغیرہ کا کاروبار کرتے ہیں۔ پھر ذرا اپنی حکومت کے شعبہ تجارت سے معلوم فرمائیے کہ قربانی کی کھالوں، ہڈیوں اور اون وغیرہ سے کس قدر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ پھر اندرون ملک کتنی ہی مصنوعات ہیں جن کا انحصار چمڑہ، ہڈی، سینگ اور انتڑیوں پر ہے۔ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ اس نے ان تمام فوائد کو ﴿ لَكُمْ فِيْهَا خَيْرٌ ڰ ﴾ کے جملہ میں سمیٹ لیا ہے۔  اس مقام پر جانوروں کی قلت کا بہانہ اس مقام پر جانوروں کی قلت کا بہانہ بھی غیر مناسب ہے۔ اگر حکومت مویشیوں کی قلت دور کرنا چاہتی ہے تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ افزائش نسل کی کوشش کی جائے ۔ مویشی فارم کھولے جائیں، مویشی پالنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، چراگاہیں عام ہوں، سبزیوں کو ترقی دے کر ذبیحہ پر مناسب پابندی عائد کی جائے ۔ پھر بھی قلت دور نہ ہو تو بقول مودودی صاحب : ’’ہفتہ میں 
Flag Counter