تھا اور پھر اسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا۔ 8۔جواب: یہ قِصّہ اور اس سے جوازِ میلاد کی دلیل لینا کئی طرح سے غلط ہے۔ مثلاً:- (۱)اس بات پر تمام اہلِ اسلام کا اجماع ہے کہ کسی نبی کے خواب کے سِوا( کہ نبیوں کا خواب وحی و حق ہوتا ہے) کِسی دوسرے کا خواب کوئی شرعی حیثیّت نہیں رکھتا۔ (۲)یہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہماہیں یا کوئی اور ہے؟ اور پھر ان سے جس نے روایت بیان کی ہے،انہوں نے بالواسطہ بیان کی ہے۔ لہٰذا یہ روایت مُرسل ہوئی جس سے مسائلِ عقائد کے بارے میں استدلال صحیح نہیں۔ [1] (۳) اس بات کا بھی احتمال ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے زمانہ قبل از اسلام میں یہ خواب دیکھا ہو اور کفر کی حالت میں دیکھے گئے خواب کہاں حجّت ہونگے۔ جبکہ مومن و متقی کا خواب بھی حُجّتِ شرعی نہیں ہوتا،سوائے انبیاء علیہم السّلام کے خواب کے۔ (۴)اکثر اہلِ علم کا خیال ہے کہ کافر اگر کفر پر ہی مرجائے تو اسے اس کے کسی عمل کا ثواب نہیں ملتا۔اور یہی صحیح بھی ہے۔ کیونکہ سورۂ فرقان آیت ۲۳ میں ارشادِ الٰہی ہے: {وَقَدِ مْنَا اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَآئً مَّنْثُوْراً } ’’اور ہم ان(کفّار) کے اُن اعمال کی طرف متوجّہ ہوں گے جو انہوں نے(دُنیا میں) کیئے تھے۔تو اُن(اعمال) کو اُڑتی ہوئی خاک کی طرح کردیں گے۔‘‘ اور سورۂ کہف آیت ۱۰۵ میں فرمانِ الٰہی ہے: |