1۔جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ نمازِ تراویح کو بدعت کہنا درست نہیں ۔ کیونکہ یہ بدعت تب ہوتی جب اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ثبوت ہی نہ ملتا۔ حالانکہ ایسا نہیں، بلکہ دیگر کتبِ حدیث کے علاوہ خاص صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا سے مَروی حدیث میں مذکور ہے کہ تیں دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے با جماعت تراویح پڑھائی،لیکن چوتھے دن تراویح کی جماعت کے لیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لائے جس کا سبب یہ بتایا: {خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوْاعَنْھَا} پھر جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دُنیا سے تشریف لے گئے اور تراویح کی فرضیّت کا خدشہ زائل ہوگیا، تو فراستِ فاروق رضی اللہ عنہ نے الگ الگ تراویح پڑھنے کی بجائے اتفاق واتحاد کی برکت کے پیشِ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت کے مطابق با جماعت ادائیگی کا اجراء فرمایا۔اورانھوں نے اپنے ارشاد میں بدعت کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے وہ بھی اپنے متبادر و معروف معنوں میں نہیں ہے، بلکہ یہ مشاکلہ( یعنی شکلا ً ملتا جلتا)ہے۔جو کہ عربوں میں معروف تھا کہ ایسا لفظ استعمال کرنا جس سے اس کا اصل معنی نہیں بلکہ کوئی دوسرا معنی مراد ہوتاہے۔ خود قرآنِ کریم میں اس مشاکلہ کی مثال موجود ہے۔ سورۃ البقرہ آیت ۱۳۸ میں ارشادِ الٰہی ہے: {صِبْغَۃَ اللّٰهِ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَۃً} ’’اللہ کا رنگ(دین ِ اسلام) اختیار کرو اور اللہ سے اچھا رنگ کس کا ہوگا؟‘‘ یہاں صِبغہ سے مُراد رنگ یا پاؤڈر نہیں بلکہ اسلام مُراد ہے۔ اسی طرح قولِ فاروق میں بدعت سے مُراد ہے:’’ گذشتہ ایّام میں نہ پائی جانے والی چیز کو وجود میں لانا‘‘۔ جبکہ یہ بھی نہیں کہ با لکلیہ سابق میں موجود نہ تھی۔ بلکہ اس کا اجراء سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے پیش نظر ہی کیا گیا تھا۔ |