’’پندرہ سوسال بعد آیت قرآنی کی نئی تشریح ‘‘ اس رسالے میں قرشی صاحب نے یہ موٗقف اختیار کیاہے کہ سورۃ طلاق کی آیت ’’واللائی لم یحضن‘‘ مدینہ میں نازل ہوئی جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح مکہ میں ہوا اورہجرت کے بعد قریبی زمانے رخصتی بھی ہوئی اس لئے یہ آیت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے ضمن میں پیش نہیں کی جاسکتی اس ضمن میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے متعلق حدیث پرجوباب قائم کیاہے اس پراعتراض کرتے ہوئے قرشی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ: ﴿ یہ بات ہرایک جانتاہے کہامام بخاری رحمہ اللہ کے انتقال کے وقت یہ کتاب حالیہ ترتیب میں نہیں تھی بلکہ بخاری کے مقدمہ میں کتاب کی ترتیب کے سلسلہ میں یوں لکھاہے ،حافظ ابواسحاق ابراہیم بن احمد مستملی نے کہامیں نے صحیح بخاری کو نقل کیااصل کتاب سے جوامام بخاری رحمہ اللہ کے ساتھی محمد بن یوسف فربری کے پاس تھی ،اسمیں بعض چیزیں تمام نہ تھیں،بعض جگہوں پربیاض تھی بعض تراجم تھے جن کے بعد کچھ نہ تھا،بعض احادیث تھیں جن کاترجمہ باب نہ تھاتوہم نے ایک کودوسرے کے ساتھ اضافہ کیابحوالہ صحیح بخاری جلد اول ،اب اس تفصیل سے آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ ترتیب امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ بخاری رحمہ اللہ نے’’ واللائی لم یحضن‘‘ کاباب قائم ضرور کیاتھالیکن انہیں ایسی نابالغ لڑکی کی طلاق سے متعلق کوئی حدیث نہیں ملی ا س لئے اس جگہ کوانہوں نے خالی چھوڑدیابعد میں ترتیب دینے والوں نے اس خالی جگہ کواپنی صواب دیدپر بی بی عائشہ رضي الله عنها کی روایت کے اضافہ سے اسے پورا کردیا﴾ اپنے اس بیان میں قرشی صاحب خود تسلیم کررہے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نابالغ لڑکی کی شادی کے قائل تھے اسلئے انھوں نے ’’واللائی لم یحضن‘‘ کاباب نابالغ لڑکی کی طلاق کے بعد عدت پر استدلال کرنے کے لئے قائم کیاتھالیکناس کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ کوکوئی حدیث نہیں ملی اورصاف ظاہر ہے کہ طلاق کے بعد عدت کامسئلہ اس وقتپیش آتاہے جب لڑکی سے شوہر صحبت کرچکا ہوپس قرشی صاحب کے بقول امام بخاری کم |