سامعین کو یہ تاثر ملے گویا کہ مقرر خودبہ نفس ونفیس ان خونچکاں معرکوں میں شریک تھے۔ سلف صالحین کو جنت میں جانے کے لئے اپنی جان ومال ،وطن اور بیوی بچوں کی قربانی دینی پڑی اور ہم مسلمانوں کے لئے ہلکی پھلکی ’’میٹھی میٹھی‘‘ سنتوں پر عمل کرلینا ہی گویاجنت میں داخلہ کا ضامن بن گیاہے ۔ ان کے لئے جنت اتنی مہنگی اور ہمارے لئے جنت اتنی سستی۔ اگر جنت اتنی سستی ہوتی تو ہمارے اسلاف کو جان ومال ،اہل وعیال اور ملک ووطن سے ہاتھ دھونے کی کیا ضرورت تھی! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْا أَنْ یَّقُوْلُوْا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ } (سورۂ العنکبوت:۲) ’’کیالوگ سمجھ بیٹھے ہیں کہ صرف یہ کہنے پر کہ ہم لوگ ایمان لائے ہیں چھوڑدیئے جائیں گے اور ان کو آزمائش میں مبتلا نہیں کیا جائیگا‘‘؟ مسلمانوں کا خود کو صرف مسلمان کہہ لینا ہی کافی نہیں ہوگا ان کو اللہ کی آزمائشوں سے گزرنا ہوگا اور ثابت قدم رہ کریہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم پکے موحدمسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ} (سورۂ العنکبوت:۳) ’’اور تحقیق ہم نے اس سے پہلے کے لوگوں کو آزمایا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ کیا ہم بعد والوں کو بغیر آزمائش کے چھوڑدیں گے؟ آیت کے باقی حصے میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: {فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْنَ } (سورۂ العنکبوت:۳) ’’ اللہ ضرور معلوم کرکے رہے گا کہ کون صداقت پر ہے اور کون جھوٹے ہیں۔‘‘ چنانچہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ یہ ضرور معلوم کرکے رہے گا کہ کون مسلمان ہونے میں سچا |