بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم جہیز جوڑے کی رسم اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلَٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ۔ اَمَّابَعْدُ: فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْْہَا مَا اکْتَسَبَتْ} (سورۂ بقرہ:۲۸۶) ’’ جونیکی وہ کرے وہ اس کے لیے ہے اور جو برائی وہ کرے وہ اس پر ہے۔‘‘ یہ جہیز جوڑے کی مصیبت بھی اپنے ہی ہاتھ کی کمائی ہے جس کو ہر مسلمان بھگت رہا ہے۔یہ قرآن سے بے وفائی، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے بے اعتنائی اور شریعت سے ناآشنائی کا جرمانہ ہے جس کو معاشرے کا ہر مسلمان جہیز جوڑے کے روپ میں ادا کررہا ہے۔ آج مسلم معاشرے کو جڑوں سے کھو کھلا کرنے والا بڑا بھیانک وخطرناک بلکہ شرمناک وافسو سناک مسئلہ یہی جہیز جوڑے کا رواج ہے جس میں چھوٹے بڑے، عالم وجاہل، گنواروترقی یافتہ سب کے سب ملوث ہیں۔ احساس ِزیاں بھی اس طرح جاتا رہا ہے کہ اس فعلِ شنیع کے فاعلین کے دلوں میں اس کی برائی کا احساس بھی باقی نہیں رہا الٹا اسے اپنی عزت ووقار کا مسئلہ بنالیا ہے۔گویا اس دلدل میں جو جتنا پھنسے گا وہ معاشرے کا اتناہی بڑا مانا جائیگا۔ ((لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ)) کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ لڑکی کو بیاہ کر لڑ کے کے حوالے کرنے کے علاوہ اور بھی کوئی ذمہ داری اس کے والدین پر ڈالی جاسکتی ہے۔ البتہ لڑکے پر فرض ہے کہ لڑکی کی مرضی کے مطابق (نہ کہ اس کے ماں باپ کے کہنے کے مطابق) مہر اداکرکے اس سے شادی کرے اور یہ مہر کی رقم یا مال صرف اور صرف دلہن کی ملکیت اوراسی کا حق ہے۔ وہ جس |