مہر کی حقیقت اور اس کی شرعی حیثیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلنِّکَاحُ سُنَّتِیْ فَمَنْ لَّمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ)) [1] ’’یہ نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ قبل از اسلام عرب میں شادی رچانے کے کئی طریقے مروج تھے۔ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے مطابق نکاح کرکے دکھلایا اورفرمایا کہ صرف یہی نکاح میری سنت ہے۔ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کیے جانے والا نکاح تین شرائط کو محیط ہوتا ہے: 1 زمانے کے مطابق لڑکا اپنی طرف سے لڑکی کو خوش دلی سے مہراداکرے کیونکہ ارشادِ الٰہی ہے: {وَ ٰاتُوا النَّسَآئَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً} (سورۃ النسآء :۴) ’’اور عورتوں کو انکے مہر راضی خوشی دے دو۔‘‘ 2 لڑکی کے لئے اسکا والد اور اسکی وفات وعدم موجودگی کی صورت میں کوئی سرپرست ہو جو اس کا ولی بنے کیونکہ حدیث میں ہے : ((لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ)) [2] ’’بغیر ولی کے لڑکی کا نکاح نہیں ہوسکتا۔‘‘ 3 لڑکا اور لڑکی دونوں آپس میں شادی کے لئے راضی ہوں جس کو عام زبان میں ایجاب وقبول کہتے ہیں۔ |