چند اہم نکات سابقہ صفحات میں ہم قرآن وحدیث سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ لڑکے کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی محنت سے کمایا ہوا مال ہی لڑکی کو نکاح میں لانے کے لئے بطورِ مہر اداکرے۔ لیکن عصرِ حاضر کی مروجہ شادیوں میں لڑکی کی طرف سے لڑکے کو ایک خطیررقم جوڑ ے کی شکل میں دی جاتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ دین میں یہ ایک سنگین بدعت ہے جو مردود ہے۔ مزید یہ کہ لڑکا اپنی ہونے والی بیوی سے لاکھوں روپئے وصول کرکے اسی میں سے اس کو مہر کے چند ہزار روپئے دیتا ہے جس کو کسی طرح حال مہر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ثابت ہوچکا ہے جس شادی میں مہر نہ ہو وہ شادی نہیں کہلائی جاسکتی ۔ مذکورہ شادی میں لڑکے نے اپنے مال میں سے مہر ادانہیں کیا لہٰذا مہر مفقود ہونے کی وجہ سے یہ شادی شرعاً فاسد ہوگئی۔ اجنبی لڑکے اور لڑکی کے ازدواجی تعلقات کو حلال کرنے والی چیز ’’نکاح‘‘ ہے جب نکاح ہی فاسد ہوجائے تو لڑکا اور لڑکی کے آپسی ازدواجی تعلقات بھی حلال نہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الإِْثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ} (سورۂ مائدہ:۲) ’’گناہ اور زیادتی کے امور میں ایک دوسرے کی مدد نہ کیا کرو۔ اور (ایسا کرنے سے) اللہ سے ڈرتے رہوبیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ چنانچہ واضح ہواکہ جہیز جوڑے کی شادیوں میں کہ جن میں گناہ اور زیادتی ہوتی ہے۔ ہمیں شریک نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر شریک ہوں گے تو گناہ کے کام میں مدد کرنے کے مترادف |