بسم اللّٰه الرحمن الرحیم مقدمہ طبع دوم اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْاَمِیْنِ اَمَّابَعْدُ: شادی میں دلہن کو جہیز دینے کی شرعی حیثیت جہیز لغوی طور پر’’جَھَزَ‘‘ سے مشتق ہے۔جس کا معنیٰ ہے سامان تیار کرنا۔قرآنِ کریم میں اسطرح بیان ہوا ہے: {وَلَمَّا جَہَّزَہُمْ بِجَہَازِہِمْ} (سورۂ یوسف:۵۹) ’’اور جب اُس نے ان کا سامان تیار کیا۔‘‘ اصلاحی طور پر جہیز سے مراد وہ سامان ہے جو دُلہن کے گھر والے شادی کے موقع پر دُلہن کے ساتھ دولہا کے گھر روانہ کرتے ہیں۔ اس کے تعلق سے شریعت کا حکم یہ ہے کہ جہیز کو نکاح کے لیے ضروری اور لازم سمجھنا ہرگز صحیح نہیں ہے۔کیونکہ شریعت ِ اسلامیہ میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ لڑکی کو جہیز نہ دیا گیا تو نکاح ہی نہ ہوگا بلکہ جہیز کی وہ بُری رسم جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔لڑکے والے لڑکی والوں سے مطالبہ کرتے ہیں یا خود لڑکی والے لڑکی کیلئے جہیز تیار کرکے اپنی حیثیت سے بھی زیادہ دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ معاشرہ میں انکی ناک کٹنے سے بچ جائے۔خواہ اس کے لیے انہیں دوسروں سے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ حالانکہ تاریخ وسیرت کا مطالبہ کیا جائے تو اس کا وجود نہ تو عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتا ہے اور نہ ہی عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں۔حقیقت میں یہ خالصتاً ہندوانہ رسم ہے جسمیں لڑکی کو شادی کے موقع پر جہیز دے کر اس کے حقِ واراثت سے محروم کردیا جاتا ہے اور ہندوؤں کی دیکھا دیکی |