{وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ أَکَابِرَ مُجَرِمِیْہَا لِیَمْکُرُوْا فِیْہَا} (سورۂ الانعام:۱۲۳) ’’اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے بڑوں کو مجرم بنایا تا کہ وہاں مکروفریب کریں۔‘‘ یہ خوشی سے رشوت دینے والے مالدار لوگ ہی بہت خطر ناک ہوتے ہیں جو معاشرہ میں ایسے مذموم رواج کو ہوادیتے ہیں اور اس کو مثال بنا کر غریبوں کو بھی تنگ کرتے ہیں۔ شادی اور’’نماز کا مسئلہ‘‘ مملکت سعودی عرب کے مشہور ومعروف مفتی سماحۃ الشیخ علّامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے قرآن وحدیث کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’ اگر شوہر نمازی ہے اور بیوی بے نمازی ہوتو شوہر کو چاہیئے کہ اس بیوی سے الگ تھلگ رہ کراسے نماز کی اہمیت پر پندونصیحت سے نوازے اور جنت وجہنم، ثواب وعقاب کا خوف دلائے۔ اگر اس کی بیوی ترکِ صلوٰۃ سے تائب ہو کر نمازی بن جائے تو اس شوہر کو چاہیئے کہ ایک ولی اور دو گواہوں کے ذریعے اس کے ساتھ تجدید نکاح کرے۔ کیوں کہ ترکِ صلوٰۃ کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کفر لازم آجاتا ہے اور شوہر نمازی مومن اور بیوی بے نمازی کا فرہ ہونے کی وجہ سے نکاح فسخ ہوچکا ہے۔ اگر بیوی اپنے رویہ پر مصررہے تو شوہر کو چاہیئے کہ اپنی نافرمان بیوی سے مفارقت اختیار کرلے۔‘‘[1] اسی طرح ایک دوسرے سعودی مفتی فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: |