مسائل کا حل اور اس مذموم رسم سے نجاعت کی راہ صحیح بخاری وابن ماجہ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ دَائً اِلَّا اَنْزَلَ لَہٗ شِفَائً( وعند ابن ماجہ):الدَّوَائَ)) [1] ’’اللہ تعالیٰ نے جب بیماری پیداکی ہے تو دوا وشفاء بھی اسی نے پیدا کی ہے ۔‘‘ لہٰذا کوئی مسئلہ ہے تو اس کا حل بھی ضرور ہونا چاہیئے۔ بیماری جتنی سنگین ہے دوا بھی اتنی ہی تلخ اور قیمتی ہوتی ہے۔ مسئلہ جتنا گہرا ہو حل بھی اتنا ہی مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لئے صبرو استقامت اورعزم وتوکل علی اللہ کا سہارا لینا پڑے گا۔ ورنہ ان تمام مصائب وآلام سے نجات ناممکن ہوجائے گی۔ 1یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب تک بندہ آزمائش کی سرحد کونہیں چھو لیتا اس کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈالے جانے کے بعد ہی اس آگ کو حکم ہوا: { یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْداً وَّسَلَاماً عَلَیٰ إِبْرَاہِیْم} (سورۂ الْأنبیاء:۶۹) ’’اے آگ! تو ٹھنڈی ہوجا اورابراہیم کے لیے سلامتی وآرام کی چیز بن جا۔‘‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلادینے کے بعد ہی {قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا} (سورۂ صّٰفّٰات:۱۰۵) ’’تم نے خواب کو سچا کر دکھایا۔‘‘ کی شاباشی ملی۔ لہٰذا صبر واستقامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت پر یقینِ کامل پیدا کرکے ان مسئلوں کا سامنا کریں گے اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامنے کا عزم کرلیں گے تو |