’’میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی مگر جس نے سرکشی کی۔ کسی نے پوچھا :کون ہے جس نے سرکشی کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا۔ جس نے میری نافرمانی کی وہ سرکش (جہنم میں داخل) ہوا۔‘‘ دولت کو جمع کرنااور اس کو حج وزکوٰۃ اور خیر خیرات میں لگانے کے بجائے اس کا بیجا صرف کرنا۔ شادی بیاہ میں ڈوری، کٹنم، جہیز جو ڑا کے رسم ورواج میں لٹانا اور اس میں ندامت کی بجائے شان وشوکت جتا نارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سرکشی نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا اس فعلِ شنیع کے عامل ہوجانے کے بعد بھی جنت کی توقع باقی رہ جاتی ہیں ؟ کاش کہ ہمارے مسلمان حضرات غور کرتے اور عقل کے ناخن لیتے اور قربانی کے لیے تیار ہوجاتے۔ ایک اور حدیث میں حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ،اَلصَّابِرُ فِیْھِمْ عَلٰی دِیْنِہِ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ)) [1] ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ اس (برائی کے) زمانے میں میرے دین اور میری سنت کو تھامنے والاہاتھ میں، انگارے پکڑنے والے کی مانند ہوگا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آج وہ زمانہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ آپ کی سنت پر عمل کرنا گویا ہاتھ میں انگارے لینا ہے۔ اگر آج کوئی مسلمان بدعتوں سے بچکر سنت پر عمل کرنا چاہے اور شادی بیاہ ان مذموم رسم و رواج سے بچکر سنت کے مطابق کرنا چاہیے اور جہیز جوڑے کی رقم سے اپنے ہاتھوں کو پاک صاف رکھنا چاہے تو وہ شخص معاشرے سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ وہ سب کے ساتھ مل جل کر جینے کے قابل نہیں رہتا۔ بھری دنیا میں وہ خودکو اکیلا اور تنہا محسوس کرے گا۔ ایسے کٹھن وقت میں جو مضبوط ارادہ کے ساتھ سنت کی رسی کو مضبوطی سے تھام |