ابن ماجہ میں ہے کہ جب آپ افق پر بادل دیکھتے تو تمام کام چھوڑ دیتے اور یہ دعا پڑھتے : ’’اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا أُرْسِلَ بِہٖ ‘‘ ’’اے اللہ !میں تیری پناہ لیتا ہوں اس شر سے جس کے ساتھ یہ بھیجا گیا ہے ‘‘ کسی منکر کو دیکھ کر حضرت ابو سعید خدر ی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَراً فَلْیُغَیِّرْہٗ بِیَدِہِ،فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ،فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ ا لْإ یْمَانِ ‘‘(مسلم ) ’’تم میں سے جو کوئی برا کام دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے روکے،اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے زبان سے روکے،اور اگراس کی طاقت نہیں رکھتا ہو تو دل سے برا جانے،یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے بعد رائی کے برابر بھی ایمان نہیں،لھذاہر مسلمان کا حسب استطاعت یہ فریضہ ہے کہ وہ برائی کو روکنے کی کوشش کر ے تا کہ معاشرہ فواحش ومنکرات سے پاک اور صحیح اقدار پر قائم ہو۔ نظر بد کی حقیقت نظر بدکی تاثیرایک معلوم حقیقت ہے،جس کا انکار ممکن نہیں قرآن مجید میں بھی اس کا اشارہ موجود ہے۔چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿وَاِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِأَ بْصٰرِھِمْ ﴾ ( القلم:۵۱) ’’اور یہ کافرایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلا کر گرا دیں ‘‘ حضرت ابن عباس اور امام مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں کہ ﴿لَیُزْلِقُوْنَکَ بِأَ بْصٰرِ ھِم﴾ سے مراد’’ یَعینونک بأبصارھم ‘‘ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے تمہیں نظر لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نظر بد کی تاثیر حق ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ج۴س۵۲۶) |