حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نظر بد کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچا نا ہے۔چنانچہ روایت میں ہے کہ بعض ایسے اشخاص جو نظر بد کے لئے مشہور تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے گئے اور انھوں نے آپ کو گھور کر کہا،ہم نے تو کبھی ایسا آدمی نہیں دیکھا اور نہ کسی کا ایسا کلام سنا ہے۔یہ اس قسم کے لوگ تھے کہ جب کسی فربہ اونٹنی پر ان کی نظر پڑجا تی تو انہیں اپنی نظر بد پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے غلام سے کہہ دیتے یہ ٹوکری لے لو اور فلاں شخص کی اونٹنی کا گوشت لے آؤ۔اور یوں ایسا ہی ہوتا کہ ان کے گھورنے سے وہ اونٹنی زمین پر گر کر لوٹنے لگتی اور اس کا مالک اسے مجبور ا ذبح کر دیتا۔ (تفسیر المعوذتین ) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کو مصر بھیجتے ہوئے نصیحت کی کہ :۔ ﴿یٰبَنِیَّ لَا تَدْ خُلُوْا مِنْ بَا بٍ وَّاحِدٍ وَّّادْخُلُوْا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ وَّمَاأُعْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ شَیئٍ﴾ الآیۃ (یوسف :۶۷) ’’اے میرے بیٹو !ایک ہی دروازے سے داخل مت ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں میں سے داخل ہونا،میں تمہیں اللہ کی تقدیر سے نہیں بچا سکتا ‘‘اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما،محمد بن کعب رحمہ اللہ،مجاہد رحمہ اللہ،الضحاک،قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے نظر بد سے بچنے کے لئے انہیں الگ الگ دروازوں میں سے داخل ہونے کا حکم فرمایا تھا۔کیونکہ وہ پیغمبرزادے اور یوسف علیہ السلام کے بھائی تھے۔ خوبصورت اور قد آور جوان تھے۔وہ گیارہ کے گیارہ ایک ساتھ داخل ہوتے تو ہو سکتا تھا کہ کسی حاسد کی نظر کا شکار ہو جاتے۔(تفسیر ابن کثیر: ج۲ص۶۳۷)یہی بات علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی (تفسیر ج۹ص۱۴۸)میں اور دیگر مفسرین کرام نے بھی کہی ہے۔ احادیث پاک میں بھی نظر بد کی تا ثیر اور اس کی حقیقت کا مختلف انداز میں ذ کر آیا ہے۔چنانچہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اَلْعَیْنُ حَقٌّ‘‘نظر کا لگ جانا حق ہے (بخاری نمبر:۵۷۴۰،مسلم)سنن ابن ماجہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے |