’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّاابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا ‘‘(ترمذی وغیرہ ) ’’سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھے اس سے بچایا جس میں تجھ کو مبتلا کر دیاہے اور جس نے مجھے بہت سی مخلوق پر فضیلت بخشی ہے‘‘ یہ دعا مریض کے پاس آہستہ پڑھنی چاہیے،تاکہ وہ آزردہ خاطر نہ ہو لیکن اگر کوئی معصیت اور نافرمانی کے مرض میں مبتلا ہے تو اسے دیکھ کر یہ دعا بلند آواز میں پڑھی جا سکتی ہے۔تاکہ اسے عبرت ہو،بشر طیکہ کسی مفسدہ کا خطرہ نہ ہو۔حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جب کسی کو برے عمل میں مبتلا دیکھتے تو یہی دعا پڑھتے اور فرماتے کہ ایمان وعمل کی بیماری جسمانی بیماری سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہے۔ کسی (آیۃ )نشانی کو دیکھنا جو کوئی ایسی نشانی دیکھے جس سے انسان خوف وخطر محسوس کرے تو چاہیے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضورسربسجود ہو جائے۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب انہیں بتلایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاں زوجہ محترمہ کا انتقال ہو گیا ہے تو وہ فوراً سجدہ ریز ہو گئے،ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے اس موقعہ پر سجدہ کیوں کیا ہے ؟یہ بھی کوئی سجدہ کا باعث ہے تو انھوں نے فرمایا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’إِذَا رَأَیْتُمْ آیَۃً فُاسْجُدُ وْا ‘‘ ’’کہ جب تم کوئی نشانی دیکھو تو سجدہ کرو‘‘’’وَأَیُّ آیَۃٍ أَعْظَمُ مِنْ َذھَابِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا دنیا سے چلا جانا اس سے بڑھ کر اور کون سی نشانی ہو گی ( ابو داؤدرقم :۱۱۹۳،ترمذی وحسنہ)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ صحابہ کرام کی موجوگی کو امن کا باعث قرار دیا۔ان کی وفات گویا امن کے زوال اور خوف وخطرات کے حدوث کا باعث ہے اسی لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ کے انتقال پر سجدہ کیا کہ ان کی زندگی جن برکات کا باعث تھی وہ چل بسیں۔اس لئے اللہ کے حضور سجدہ |