Maktaba Wahhabi

65 - 91
زیب وزینت کے ساتھ براجمان ہوتی ہیں،ٹی وی کیمرہ انہیں بڑے اہتمام سے اپنی گرفت میں لے کر آرٹ کی شرط پوری کرتا ہے اور یوں تشنہ نگاہوں کی سیرابی کا انتظام ہو جاتا ہے۔بتلائیے جہاں یہ سب کچھ تفریح کے نام پر ہو رہا ہو،کیا وہاں اس کے نتیجے میں زنا،بدکاری اور لڑکیو ں کے اغوا کی وارداتوں میں اضافہ نہیں ہو گا ؟برے جذبات نہیں بھڑ کیں گے ؟ بلکہ اب تو اخبارات میں گاہے بگاہے ٹی وی کے برے اثرات سے باخبر کیا جانے لگا ہے۔ کہ اس سے قتل،ڈاکہ،اغوا،مار دھاڑ میں اضافہ ہو رہا ہے اور مجر م نوجوان خود عدالتی تحقیقات کے دوران اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ یہ لت ہمیں ٹی وی سے پڑی ہے۔ علاوہ ازیں ٹی وی دیکھنے سے بینائی پر اس کے برے اثرات سے بھی خبردار کیا جا رہا ہے مگر ٹی وی کی دلفریبی کے سامنے یہ آواز صد ا بصحرا ثا بت ہوئی ہے ویسے بھی اس نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ؟ یہ سارے مفاسد اس بات کے مقتضی ہیں کہ شہوت انگیزتصویریں دیکھنے سے اجتناب کیا جائے اور ٹی وی وغیرہ سے احتراز کیا جائے۔کیونکہ یہ ﴿اِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِھِمَا﴾ کا مصداق ہے کہ اس میں فائدہ کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ بدنگاہی کا انجام نظرکے فتنے اور فساد کا کوئی بھی صاحب بصیرت انسان انکار نہیں کرسکتا۔ ا س فتنے میں مبتلا انسان کا انجام آخرت ہی میں برا نہیں ہوگا،بلکہ بسا اوقات اس کا خمیازہ یہاں بھی بھگتناپڑتا ہے۔دنیا میں اس کے انجام میں مبتلا ہو کر انسان اگر راہ راست پر آجائے تو یہ بہر نوع اس کی اخروی کا میابی کی علامت ہے حضرت عبدللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’إذَا أَرَادَ اللّٰہُ لِعَبْدٍ خَیْرًا عَجَّلَ لَہٗ عَقُوْبَۃً فِی الدُّنْیَا‘‘ ’’کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو دنیا میں اس کے جرم کی سزا دے دیتے ہیں ‘‘ حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس روایت کا پس منظر یوں ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا جس کا خون بہہ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا میرے پاس سے ایک عورت گزری،میں نے اس کی طرف
Flag Counter