دیکھا،پھر اسے دیکھتا ہی چلا گیا۔سامنے ایک دیوار آئی تو اس نے مجھے دیوا ر سے دے مارا۔جس سے یہ خون بہہ نکلا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جب کسی سے بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے اس کے جرم کی سزا جلد دنیا ہی میں دے دیتے ہیں۔حضرت عمرو بن مرۃ جن کا ذکر خیر پہلے بھی گز ر چکا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ ایک عورت کو دیکھا وہ مجھے بڑی پسند آئی کچھ عرصہ بعد میری بینائی جاتی رہی۔میں سمجھتا ہوں کہ مجھے یہ سزا اسی عورت کو دیکھنے کی وجہ سے ملی ہے۔ غور فرمایا آپ نے ؟کہ امام عمرو بن مرۃ جو عظیم محدث اور صحاح ستہ کی راوی ہیں کیا فرما رہے ہیں ؟کہ میری بینائی کے چلے جانے کا سبب یہ ہے کہ میں نے غیر محرم کو دیکھا تھا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بھی ارشاد فرمایا ہے : ﴿وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ﴾(الشوری:۳۰) ’’کہ تم پر جو مصیبت آتی ہے یہ تمہارے اپنے اعمال کی بنا پر ہے۔‘‘ اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم :۴۱) ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی سے ‘‘ دنیا دار العمل ہے دار الجزاء نہیں۔یہاں کسی عذاب اور انجام میں مبتلا ہوجانا محض آئندہ کے سخت ترین عذا ب سے بچنے کا الارم ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِنَ الْعَذَابِ اَ لْاَ دْنٰی دُوْنَ الْعَذَا بِ الْاَکْبَرِلَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ (السجدہ :۲۱) ’’ اس بڑ ے عذاب سے پہلے ہم اس دنیا میں کسی چھوٹے عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہتے ہیں شاید کہ یہ (باغیانہ روش سے )باز آجائیں ‘‘ غور کیجئے کہ اسی قرآنی تعلیم کی بنا پر حضرت عمرو بن مرۃ نے فرمایا کہ یہ میری غلطی کا نتیجہ ہے۔یا دش بخیر امام محمد بن سیر ین جن کے علم وفضل سے زمانہ واقف ہے،،تجارت کرتے تھے ایک بار تجارت میں جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں ۸۰ ہزار کا خسارہ |