علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بار بارش نہ ہوئی تو آپ لوگو ں کے ساتھ بارش کے لئے دعا کرنے نکلے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ آپ کے ساتھ تو بڑے خطا کار لوگ ہیں انہیں بتلا دو یوں بارش نہیں ہوگی۔ انہوں نے قوم کو اس سے خبردار کیا،اور فرمایا ایسے لوگ علیحدہ ہو جائیں۔وہ ایک طرف ہو گئے،مگرایک آدمی ان کے ساتھ رہا جس کی دائیں آنکھ نہ تھی۔حضرت عیسی علیہ السلام نے اسے فرمایا : تم علیحد ہ کیوں نہیں ہوئے ؟ تو اس نے عرض کی اے اللہ کے نبی! میں نے کبھی آ نکھ جھپکنے کے برابر بھی گناہ نہیں کیا۔ البتہ ایک بار میری یہ آنکھ غیر محرم کی طرف اٹھ گئی تھی میں نے اسے نکال دیا دوسری آنکھ بھی یہی غلطی کرتی تو میں اس کا بھی یہی حشر کرتا۔ حضرت عیسی علیہ السلام یہ سن کر رونے لگے اور فرمایا تم دعا کرو،اس کے تم حقدار ہو،چنانچہ اس نے یوں دعاکی: ’’اَللّٰھُمَّ أَنْتَ خَلَقْتَنَا وَقَدْ عَلِمْتَ مَانَعْمَلُ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَخْلُقَنَا فَلَمْ یَمْنَعْکَذَ لِکَ أَنْ تَخْلُقَنَا وَتَکَلَّفْتَ بِأَرْزَاقِنَا فَأَرْسِلْ عَلَیْنَا مِدْرَاراً۔‘‘ ( ذم الھوی) ’’اے اللہ! آپ نے ہمیں پید ا کیا اور ہمارے پیدا کرنے سے پہلے آپ جانتے تھے کہ ہم کیا عمل کر یں گے۔پھر بھی آپ نے ہمیں پید ا کیا لہذا جب آپ نے ہمیں پیدا کیا اور خود ہی ہماری روزی کا ذمہ بھی لیا ہے تو ہم پر موسلا دھار بارش بر سا دے۔‘‘ ابھی وہ یہ کلمات کہہ رہا تھا کہ آسمان پر بادل نمودار ہوا اور بارش برسنے لگی۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :علی وجہ التسلیم اس واقعہ کے بارے میں کہا جائے گا کہ ان کی شریعت میں گناہ کے ارتکاب میں یہ سزا جائز ہو،مگر ہماری شریعت میں یہ ناجائز ہے۔ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ عیسائی مذہب میں ایسی آنکھ کو نکال دینے کا ہی حکم ہے۔اس لئے اس کا عمل عیسائی مذہب کے مطابق تھا لیکن اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا،علامہ موصوف نے راھبوں کے اسی نوعیت کے اور واقعات بھی نقل کئے ہیں۔ لیکن وہ ہمارے لئے مشعل راہ نہیں۔البتہ بد نظری کے انجام اور اس کے نتائج وعواقب |