تھے،یوسف بن اسباط رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ان کے حیا کا عالم یہ تھاکہ’’مکث أربعین سنۃ لم یرفع طرفہإلی السماء‘‘کہ چالیس سال تک انہوں نے اپنی نظر آسمان کی طرف نہیں اٹھائی [1]بات بظاہر بڑی عجیب سی ہے جسے تسلیم مشکل سے ہی کیا جا سکتا ہے۔مگر کیا کیا جائے کہ ان کے بارے میں حافظ ذھبی رحمہ اللہ کابیان ہے ’’ذھب بصر عبد العزیز عشرین سنۃ ولم یعلم بہ اھلہ وولدہ‘‘’’کہ ان کی نظر چلی گئی مگر بیس سال تک ان کے اہل وعیال کو اس کا علم نہ ہو سکا ‘‘ (سیر اعلام النبلا ء: ص۱۸۴،۵ ۸ ۱ ج۷ )بلا شبہ یہ بات عقل وفکر کے بظاہر منافی ہے۔حافظ ذھبی رحمہ اللہ نے بلا اسناد اسے ذکر کر دیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو شیخ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خود اعتمادی اور دنیا سے بے رغبتی کی بہت بڑی دلیل ہے۔ عبداللہ بن ابی الہذیل رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے رفقاء کے ہمراہ ایک مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے وہاں ان کے مصاحبوں میں سے ایک صاحب خاتون خانہ کی طرف دیکھنے لگے تو انہوں نے فرمایا’’لو تفقات عیناک کان خیرا لک‘‘’’کہ اس عورت کو دیکھنے کی بجائے تیری آنکھیں پھوٹ جاتیں تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوتا‘‘(الا دب المفرد: ص۳۳۳ ذم الھوی) شیخ الالسلام امام یحیی بن شرف نووی رحمہ اللہ صحیح مسلم کے شارح اور شرح المھذب کے مصنف سے کون واقف نہیں ؟ ان کے بارے میں انہی کے تلمیذ یحیی بن علی الصالحی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں ابھی امرد تھا کہ میرے والد مجھے امام نووی رحمہ اللہ کی مجلس میں لے گئے۔تاکہ ان سے علم حاصل کروں۔انہوں نے فرمایا’’أنا أری أنّ النظر إلی الأ مرد حرام مطلقًا ‘‘میں امرد کو دیکھنا مطلقًا حرام سمجھتا ہوں۔اس لئے آپ کے بیٹے کو پڑھا نہیں سکتا۔ آپ اسے شیخ تاج الدین کے پاس لے جائیں۔(ا لد ررا لکامنۃ :ص۴۲۲ ج۴) علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ حضرت عیسی |