Maktaba Wahhabi

45 - 59
اونٹوں کوکھینچو۔ دونوں اونٹ کھینچتے ہوئے چلے گئے۔ لاش دو ٹکڑے ہو کر گر پڑی اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کے چہرے پر مسکراہٹ ہے۔ اتنی تکلیف سے مارا مگر لبوں سے مسکراہٹ نہیں چھین سکے۔ سب حیران ہیں ! اتنی تکلیف کے بعد بھی مسکرا رہی ہے۔ انہیں کیا پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمارکھا ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْارَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْاوَلَاتَحْزَنُوْاوَاَبْشِرُوْابِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo نَحْنُ اَوْلِیٰٓئُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَدَّعُوْنَoنُزُلًامِّنْ غَفُوْرٍرَّحِیْمٍo} (سورۂ حٰمٓ السَّجْدَۃ:۳۰۔۳۲) ’’(واقعی) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے ،پھر اسی پر قائم رہے، ان کے پاس فرشتے( یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی غم نہ کرو(بلکہ)اُس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو۔ تمہاری دنیوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے‘ جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لیے(جنت میں موجود) ہے۔غفور ورحیم(معبود) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے۔‘‘ اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دین کی تعلیم نہ دی ہوتی اور نفس پر قابو کرنا نہ سکھلایا ہوتا یا شیطان کے وساوس کا مقابلہ کرنے کا ہُنر انہیں نہ بتلایا ہو تا تو کیا یہ ممکن تھا کہ اتنی تکالیف برداشت کرنے کے باوجود اپنے دین پر اس قدرثابت قدم رہتے؟ اس لیے ہمیں چاہیئے کہ ہم بتدریج اور مستقل طور پر دین کا علم اور تربیّت حاصل کرلیں ،قبل اس کے کہ کوئی فتنہ ہمیں آگھیرے اور ہمیں کچھ سیکھنے اور سمجھے کا موقعہ نہ ملے۔
Flag Counter