Maktaba Wahhabi

58 - 59
وہی ہوا، یعنی لوگ ایمان لے آئے۔بادشاہ نے حکم دیا کہ راہوں کے ناکوں پر خندقیں کھودی جائیں ،پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان میں خوب آگ بھڑکائی اور کہاجوشخص اس دین(یعنی لڑکے کے دین) سے نہ پِھرے اُسے اُن خندقوں میں دھکیل دو یا اس سے کہو کہ ان خندقوں میں کودجائے۔لوگوں نے ایسا ہی کیا ،یہاں تک کہ ایک عورت آئی۔اُس کے ساتھ اس کا ایک بچہ بھی تھا۔وہ عورت آگ میں گرنے سے جھجکی(پیچھے ہٹی) بچے نے کہا:(اِصْبِرِیْ یَا اُمَّاہ،فَاِنَّکِ عَلٰی الْحَقِّ)’’اے ماں ! صبر کر تو سچے دین پر ہے۔‘‘(یعنی مرنے کے بعد پھرچَین ہی چَین ہے، پھر تو دنیا کی مصیبت سے کیوں ڈرتی ہے۔) (صحیح مسلم:۷۱۴۸، وبحوالہ تفسیر ابن کثیر ۴/۶۳۵تا۶۳۷) حاصل ِ کلام آج مسلمان ظلم اور زیادتیوں کے فتنہ اور آزمائش میں مبتلا ہیں اور یہ دور شدید صبر و استقامت طلب ہے۔اور یہ ضروری ہے کہ کفار کی یہ وقتی کامیابی ہماری استقامتِ دین پر کوئی اثر نہ ڈال سکے اور ہمارے توکّل علیٰ اللہ میں ذرّہ برابر بھی تزلزل یا کمی واقع نہ ہونے پائے۔ہمارا رب زبردست انصاف کرنے والاہے اور وہ دشمنانِ اسلام پر انکے ظلم اور زیادتیوں کے سبب جلد ہی اپنا دردناک عذاب مسلّط کر دیگا۔ اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایاہے: {لَاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِo مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِھَادُo}(سورۃ آل عمران :۱۹۶-۱۹۷) ’’ کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے‘ یہ تو بہت ہی تھوڑا فائدہ ہے‘اُس کے بعد ان کا ٹھکانہ تو جہنم ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔‘‘
Flag Counter