Maktaba Wahhabi

43 - 59
علم حاصل کرنا، دین کو سمجھنا اور بتدریج وقدم بہ قدم دینی تربیت حاصل کرنا ،یہ سب حصولِ استقامت کے بنیادی اسباب ہیں ۔ دین کا علم صحیح اور غلط کی تفریق کر دیتا ہے، مجرموں کے طریقہ بے نقاب کر کے مؤمنوں کے طریقہ کی نشان دہی کرتا ہے۔ قلوب میں اللہ کی محبت پیدا کرتااور اسکے عذاب کا خوف دلاتا ہے۔ اور بندے کوپے در پے اسلام سے ایمان اور پھر احسان کے درجہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص جو اپنے دین کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا وہ دین پر قائمکیسے رہیگا جبکہ وہ اپنے دین کو پہچانتا ہی نہیں ؟؟ یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم میں دین کا علم اور سمجھ پیدا کرنے کے لیے بڑی جدّوجہد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کے ابتدائی دور میں بھی جب سارا مکہ اسلام کا مخالف تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی دینی تربیت کے لیے دارُ الارقم(اسلام کی پہلی درس گاہ) کا انتخاب کیا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو دین کا علم سکھلاتے اور انکی روحانی تربیت کیا کرتے تھے۔ اسی دینی تربیت کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دین پر وہ پختہ استقامت حاصل ہوئی کہ انہوں نے اللہ کے دین کی خاطر اپنا مال و عیال اور جان تک قربان کرنا گوارہ کر لیا مگر اللہ کے دین سے ہٹ جانا انہیں پسند نہ آیا! وہ ہمارے لیے استقامت کی سب سے بہترین مثال ہیں ۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا آقا ومالک آگ میں سرخ کی ہوئی لوہے کی سلاخیں حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی پیٹھ پر رکھ دیا کرتا تھا اور انہیں تب تک نہیں ہٹایا جاتاتھا جب تک کہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے پیٹھ کی چربی پگھل کر انہیں ٹھنڈا نہ کر دیتی۔ حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے آقا امیہ بن خلف کو جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا علم ہوا تو اس نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو شدیداذیّتیں پہنچائیں ۔ کبھی انکی گردن میں رسّی ڈال کر محلّے کے لڑکوں کے ہاتھ میں تھما دیتا جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو رسّی کے بل مکّہ مکرمہ کی گلیوں میں کھینچتے چلے جاتے، یہاں تک کہ مکہ کی پہاڑیوں سے بھی گزر جاتے۔ بعض
Flag Counter