سے ہے۔‘‘ 1 1۔ الإبانۃ الکبری: ۱۶۲۔ الدارمی: ۹۷۔ للالکائی: ۱۳۶۔ ۱۳۱۔ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا ہے: ’’جو کوئی اپنے دین کو خصومات کا نشانہ بناتا ہے، اس کی رائے ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔‘‘ 1 1۔ الإبانۃ: ۵۷۰۔ الدارمی: ۱؍۳۴۳۔ ۱۳۲۔ محمد بن علی فرماتے ہیں : اہل خصومات (یعنی جھگڑالو اور بدعتی)کے ساتھ مت بیٹھو، اس لیے کہ وہ آیات قرآنیہ میں جھگڑا کرتے ہیں ۔‘‘ 1 فضیل بن عیاض کہتے ہیں : ’’اہل خصومات کے ساتھ مجادلہ نہ کرو، وہ آیات اللہ کی گہرائیوں میں جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔‘‘ 1۔ الإبانۃ: ۳۸۸۔ الدارمی: ۲۲۱۔ للالکائی: ۲۲۳۔ ۱۳۳۔ غضیف بن حارث کہتے ہیں : ’’جب بھی کسی بدعت کو فروغ ملتا ہے تو اس کے مقابل سنت متروک ہو جاتی ہے۔‘‘ 1 1۔ أحمد: ۱۶۹۷۰۔ الإبانۃ: ۲۲۷۔ للالکائی: ۱۲۱۔ السنۃ للمروزی: ۹۶۹۔ ۱۳۴۔ ابن سیرین کہتے ہیں : ’’جو انسان آثار صحابہ پر چلتا ہو وہ راہ حق پر ہے۔‘‘ 1 1۔ الإبانۃ: ۲۴۴۔ الدارمی: ۱۴۲۔ ذم الکلام: ۳۳۸۔ للالکائی: ۱۱۲۔ ۱۳۵۔ حضرت ابراہیم (نخعی)فرماتے ہیں : ’’اگر مجھے صحابہ کے بارے میں پتہ چلے کہ انہوں نے وضو میں ناخن سے تجاوز نہیں کیا، تو میں ہر گز وہاں سے آگے نہ بڑھوں گا۔ کسی قوم کی بدبختی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ان کے اعمال کی مخالفت کریں ۔‘‘ 1 1۔ الإبانۃ: ۲۵۷۔ دارمی: ۲۲۳۔ الحلیلۃ: ۴؍ ۲۲۷۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ: 1 ’’اگر مجھے پتہ چلتا کہ صحابہ کلائی تک وضو کرتے ہیں ، تو میں بھی ایسے ہی کرتا۔ لیکن ہم کہنی تک کا حکم پڑھ رہے ہیں ، اور بلاشبہ صحابہ کرام ترکِ سنت کی تہمت نہیں ۔ وہ اہل علم تھے، اور مخلوق خدا اتباع سنت کے سب سے بڑے حریص تھے۔ ان کے متعلق بدگمانی صرف وہی رکھ سکتا ہے جس کے دین میں شک ہو۔‘‘ |