Maktaba Wahhabi

588 - 728
بیت النار کے حکم میں ہے، جس پر وقف محض باطل اور ناجائز ہے۔ فتاویٰ عالمگیری (۳/ ۲۹۹) میں ہے: ’’ومنھا أن یکون قربۃ في ذاتہ وعند التصرف فلا یصح وقف المسلم أو الذمي علی البیعۃ والکنیسۃ أو علی فقراء أھل الحرب کذا في النھر الفائق، ولو وقف الذمي دارہ علی بیعۃ أو کنیسۃ أو بیت نار فھو باطل، کذا في المحیط، وکذا علی إصلاحہا ودھن سراجھا‘‘ [ان (شرائط) میں سے ایک یہ ہے کہ وہ (وقف) فی ذاتہ اور عند التصرف قربت ہو۔ پس مسلمان یا ذمی کا بیعہ، کنیسہ یا اہلِ حرب کے فقرا پر وقف کرنا درست نہیں ہے۔ النہر الفائق میں یوں ہی ہے۔ اگر کوئی ذمی اپنا گھر بیعہ یا کنیسہ یا آتش خانے کے لیے وقف کرے تو یہ باطل ہے۔ المحیط میں بھی ایسے ہی ہے۔ ایسے ہی ان کی تعمیر و ترقی اور چراغ کے لیے تیل پر (مال وغیرہ وقف کرنا)] وقف مذکور ازروئے حدیث اس لیے صحیح نہیں ہے کہ بیان مذکور بالا سے معلوم ہوا کہ وقف مذکور قربت نہیں ہے، بلکہ معصیت ہے۔ پس وقف مذکور خلاف قانونِ شرع شریف ہے اور جو امر کہ خلافِ قانون شرع شریف ہو، وہ امر مردود اور باطل ہے، پس وقف مذکور مردود اور باطل ہے۔ صحیح مسلم میں مرفوعاً مروی ہے: (( من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رد )) [1] یعنی جو شخص کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے حکم (قانون) کے خلاف ہو تو وہ کام مردود اور باطل ہے۔ فتح الباری (۲/ ۵۸۰) میں ہے: ’’فیحتج بہ (أي بھذا الحدیث) في إبطال جمیع العقود المنھیۃ، وعدم وجود ثمراتھا المترتبۃ علیھا، وفیہ رد المحدثات، وأن النھي یقتضي الفساد، لأن المنھیات کلھا لیست من أمر الدین فیجب ردھا‘‘ اھ [تمام ممنوع معاہدات کو باطل قرار دینے اور ان پر مرتب ہونے والے ثمرات کے عدمِ وجود کے لیے اس حدیث سے حجت لی جاتی ہے۔ اس میں محدثات کے رد کی بھی دلیل موجود ہے اور وہ اس طرح کہ کسی چیز سے نہی اس کے غلط اور فاسد ہونے کا تقاضا کرتی ہے، کیونکہ جتنی منہیات ہیں ، وہ امر دین نہیں ہیں ، لہٰذا ان کا رد کرنا واجب ہے] نیز جب وقف مذکور قربت نہیں ہے تو لوجہ الله بھی نہیں ہے اور جب لوجہ الله نہیں ہے تو یہ مثل اس عتاق کے ہوا جو لوجہ الله نہ ہو اور عتاق جو لوجہ الله نہ ہو، باطل اور مردود ہے، پس اسی طرح وقف مذکور بھی کہ لوجہ الله نہیں ہے، مردود اور باطل ہے۔ صحیح بخاری میں ہے: ’’لا عتاقۃ إلا لوجہ اللّٰه ‘‘[2] [لوجہ الله ہی آزاد کرنا جائز ہے]
Flag Counter