Maktaba Wahhabi

558 - 728
جب یہ مدت گزر جائے اور وہ اپنی بیوی سے وطی نہ کر پائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس کی یہ عاجزی اور کمزوری آفتِ اصلیہ کی وجہ سے ہے تو اس مرد سے عورت کو معروف طریقے کے ساتھ اپنے پاس روکنے کا حق نہ رہا، لہٰذا اس پر لازم ہے کہ وہ عورت کو بھلے طریقے سے رخصت کر دے۔ پھر اگر وہ ایسا کرنے سے باز رہے تو قاضی اس کا نائب اور قائم مقام بن کر ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دے گا۔ مگر اس میں عورت کی طرف سے ایسا کرنے کا مطالبہ ہونا ضروری ہے، کیونکہ (مذکورہ بالا صورتِ حال میں ) جدائی اور تفریق عورت کا حق ہے] رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یہ واقعہ ہوا ہے کہ عورت نے کسی دوسرے سبب سے، جو اس سبب کے مقابلے میں نہایت خفیف کہا جا سکتا ہے، طلاق چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی۔ عن ابن عباس قال جاء ت امرأۃ ثابت بن قیس بن شماس إلی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال: یا رسول اللّٰه ! إني ما أعتب علیہ في خلق ولا دین، ولکني أکرہ الکفر في الإسلام فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( أتردین علیہ حدیقتہ؟ )) فقالت: نعم، فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( اقبل الحدیقۃ، وطلقھا تطلیقۃ )) [1] (رواہ البخاري والنسائي) [عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے خاوند ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ پر دین یا خلق کے لحاظ سے کوئی عیب نہیں لگاتی، لیکن میں مسلمان ہو کر کفر کے کام کرنا ناپسند کرتی ہوں ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اس کا دیا ہوا باغ اسے واپس کر ے گی؟ انھوں نے کہا: جی ہاں ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے (ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: باغ واپس لے لو اور اسے طلاق دے دو] کتبہ: علي أصغر ۔عفا عنہ ربہ الأکبر۔ الجواب صحیح۔ محمد عبد اللّٰه سوال: [2] کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلے میں کہ مسماۃ ہندہ کا زید کے ساتھ عقد ہوا۔ جب زید ہندہ کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ وہ نامرد ہے۔ مردوں کی طرح وہ جماع پر قادر نہ ہو سکا۔ بعض مرتبہ اگر دخول ہوگیا تو عضو فوراً مسترخی ہو کر بے کار ہوجاتا تھا اور پھر اس کی حالت نامردی کی اور ترقی کر گئی۔ زید نے بعد شادی علاج بھی کیا، لیکن اس میں وہ کامیاب نہ ہوا اور زید نے ہندہ اور اولیائے ہندہ سے یہ بھی کہا کہ فیصلہ کر لو، یعنی طلاق لے لو اور مہر معاف کر دو۔ اولیائے زید نے زید کو سمجھایا کہ گھبراؤ مت اپنا علاج کرو، پھر دیکھا جائے گا، لیکن زید ایسا گھبرایا کہ اس نے نکل جانے کا ارادہ کیا اور ہندہ سے کہا کہ اچھا ہوں گا تو آؤں گا، ورنہ نہیں آؤں گا۔ ہندہ نے کہا: میں کیا کروں گی؟ زید نے کہا: چند دنوں ، یعنی تین چار مہینے تک میرا انتظار کرنا، پھر کوئی کسی کے لیے بیٹھا تھوڑا ہی رہتا ہے، نہ میں خوبصورت ہوں نہ
Flag Counter