Maktaba Wahhabi

544 - 728
[میں کہتا ہوں کہ ابو العباس المبرد نے کہا: غلق کا معنی ہے سینے کا تنگ ہونا اور صبر کا کم ہونا، اس طور پر کہ اس سے نجات کا کوئی وسیلہ نہ ہو۔ ہمارے شیخ نے کہا: اس کے مفہوم میں مجبور و مجنون کی طلاق بھی داخل ہے اور اس کی بھی جس کی عقل نشے اور غصے سے زائل ہوچکی ہو، نیز اس کی جس کا کوئی قصد و ارادہ ہو اور نہ اسے یہ سمجھ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ غضب و غصے کی تین قسمیں ہیں : ایک قسم تو یہ ہے جو عقل کو اس طرح زائل کرتی ہے کہ اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کیا کہا ہے؟ اس صورت میں تو بلا نزاع طلاق واقع نہیں ہوتی۔ دوسری قسم وہ ہے کہ غصہ اس شخص کو اپنے قول و قصد کے تصور اور سمجھ سے نہ روکے تو اس صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی۔ تیسری قسم یہ ہے کہ اس کا غصہ مستحکم اور شدید تو ہو مگر اس سے اس کی عقل کلیتاً زائل نہ ہو، لیکن وہ اس کے اور اس کی نیت کے درمیان اس طرح حائل ہو جائے کہ اسے غصہ زائل ہونے کے بعد اپنی اس زیادتی پر ندامت ہو تو یہ محلِ نظر ہے اور اس حالت میں طلاق کا عدمِ وقوع زیادہ قوی اور مناسب ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ صح الجواب، و اللّٰه أعلم بالصواب۔ أبو الفیاض محمد عبد القادر أعظم گڑھی مؤی۔ أبو العلیٰ محمد عبد الرحمن، عفي عنہ۔ سوال: ایک شخص نے اپنی زوجہ کو ایک جلسے میں غصے کی حالت میں یہ کہا کہ تم ہماری ماں ہو اور ہم نے تم کو طلاق دیا، طلاق دیا، طلاق دیا، لیکن یہ نہیں کہا کہ تین طلاق دیا اور اس کے دل میں بھی نہ تھا کہ طلاق بائن دیتے ہیں ۔ صرف غصے کی حالت میں زبان سے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد کے جب اس کے شوہر کا غصہ فرو ہوگیا تو اپنی زوجہ سے بات کرنا چاہا، تب اس کی زوجہ نے یہ کہا کہ تم نے مجھ کو طلاق دیا ہے، اب میں تمھاری بی بی نہیں ہوں ۔ اس کے شوہر نے کہا کہ میں نے غصے کی حالت میں تم کو طلاق دیا، مگر فی الواقع میں نے طلاق نہیں دیا ہے۔ شوہر اس کا ہمیشہ جاتا ہے، مگر عورت قبول نہیں کرتی ہے اور کہتی ہے کہ بغیر فتویٰ کے میں تم سے مل نہیں سکتی۔ اس صورت میں اس کی زوجہ پر طلاق بائن واقع ہوگا یا نہیں ؟ اگر طلاق بائن واقع نہیں ہوا اور درمیان عدت کے طلاق دینے والا نے اس عورت کو زبان سے کہہ دے کہ میں نے تم کو بی بی بنا لیا تو ایسی حالت میں پھر دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے یا نہیں اور اب کونسی صورت ہے کہ زن و شو میں نکاح قائم رہے؟ بینوا تؤجروا! جواب: پہلے یہ جاننا چاہیے کہ غصے کے تین درجے ہیں : 1۔ اعلیٰ: جس میں عقل بالکل زائل ہوجاتی ہے اور اس وقت جو بات آدمی کے منہ سے نکلتی ہے نہ اس کی اس کو خبر ہوتی کہ کیا کیا بول گیا اور نہ قصد و ارادہ سے بولتا ہے۔ 2۔ اوسط: جس میں عقل تو باکل زائل نہیں ہوجاتی، لیکن قصد و ارادہ نہیں رہتا، اس وقت جو بات اس کے منہ سے نکلتی ہے، بلا قصد و ارادہ نکلتی ہے، لیکن اس قدر اس کو خبر رہتی ہے کیا کہ بول گیا۔ 3۔ ادنی: جس میں نہ عقل زائل ہوتی ہے نہ قصد و ارادہ اور اس وقت جو بات اس کے منہ سے نکلتی ہے، بقصد و ارادہ
Flag Counter