﴿ اِنْ جَاء َکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَائٍ فَتَبَیَّنُوْا ﴾ ۷۵؎ اور کفر بذات ِ خود سب سے بڑا فسق ہے ، لہٰذا جب مسلمان فاسق کی روایت قبول نہیں تو کافر کی روایت کیسے قبول ہو سکتی ہے ؟۔ علاوہ ازیں راوی کا مسلمان ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ جو کچھ بیان کرتا ہے اس کا تعلق تو دین اسلام اور اس کے احکام وتشریحات سے ہے ، لہٰذا احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ راوی ایسا شخص ہو جسے دینی احکام لوگوں تک پہنچانے کی اہمیت کا اندازہ ہو ۔ تاہم یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ اسلام کی شرط کا تعلق روایت آگے پہنچانے کے ساتھ ہے، روایت لینے کے ساتھ نہیں ۔ ٭ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م۴۶۳ ھ) نے ذکر فرمایا ہے: یجب أن یکون الراوی وقت الأداء مسلما ۷۶؎ ’’روایت آگے پہنچاتے وقت راوی کا مسلمان ہونا واجب ہے ۔ ‘‘ ٭ اِمام ابوبکر کافی رحمہ اللہ (م ۱۳۷۹ھ) نے نقل فرمایا ہے: فالإسلام إذا شرط عند الأداء والتبلیغ ولیس شرطا عند التحمل فیصح تحمل الکافر وقد ثبت روایات کثیرۃ لغیر واحد من الصحابۃ کانوا حفظوہا قبل إسلامھم وأدوھا بعدہ۷۷؎ ’’اسلام روایت آگے پہنچاتے وقت شرط ہے روایت لیتے وقت نہیں لہٰذا کافرکی لی ہوئی روایت درست ہو گی اور متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایسی بہت سی روایات ثابت ہیں جو انہوں نے قبل از اسلام یاد کیں اور قبولِ اسلام کے بعد انہیں آگے بیان کیا ۔ ‘‘ یہی باعث ہے کہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی وہ روایت قبول کر لی گئی تھی جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کو نماز مغرب میں سورۂ طور پڑھتے ہوئے سنا ۔ اس وقت وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ اس وقت وہ بدر کے قیدیوں میں شامل تھے۷۸؎ اور وہ پہلا موقع تھا کہ ان کے دل میں ایمان کا احساس پیدا ہوا ۔ ۷۹؎ 2۔ فسق فسق یہ ہے کہ راوی احکامِ شرعیہ کی پابندی نہ کرے ، کبائر سے اجتناب نہ کرے یا صغائر پر اصرار کرے یا غیر اخلاقی کاموں کا ارتکاب کرے ۔ ایسا راوی فاسق کہلاتا ہے اور اس کی روایت قابل قبول نہیں ۔ قرآن کریم نے ان لفظوں میں ﴿ یٰأَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن جَائکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ﴾ ۸۰ ؎ فاسق کی خبر کی تحقیق کا بطور ِخاص حکم دیا ہے ۔ متعدد صحابہ وتابعین سے مروی ہے کہ صرف ثقہ آدمی سے ہی روایت لی جائے ۔۸۱ ؎ ٭ اِمام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ھ) نے مقدمہ میں یہ عنوان قائم کیا ہے: باب وجوب الروایۃ عن الثقات وترک الکذابین ۸۲ ؎ ’’ باب:ہمیشہ ثقہ اور معتبر لوگوں سے روایت کرنی چاہیے اور جن لوگوں کا جھوٹ ثابت ہو ان سے روایت نہیں کرنی چاہیے ۔ ‘‘ اور اس باب کے تحت انہوں نے نقل فرمایاہے: أن خبر الفاسق ساقط غیر مقبول ۸۲ ؎ ’’فاسق کی خبر بے اعتبار اور قبول کے قابل نہیں ۔‘‘ ٭ اِمام ابن حبان رحمہ اللہ (م ۳۵۴ھ) نے فرمایا ہے: منہم المعلن بالفسق والسفہ وإن کان صدوقا فی روایتہ،لأن الفاسق لا یکون عدلا والعدل لا یکون |