Maktaba Wahhabi

326 - 432
ہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ بہت سے لوگ آیت کی تاویل تو کر ڈالتے ہیں لیکن روایت کی تاویل کی جرأت نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات تو صرف آیت کی تاویل ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ اس کے نظام کی بھی قطع و برید کر ڈالتے ہیں ۔حالانکہ جب اصل و فرع میں تعارض ہو تو کاٹنے کی چیز فرع ہے نہ کہ اصل۔‘‘۸؎ مولانا کے اس اصول کو ان کے شاگرد جناب اصلاحی صاحب اور پھر ان کے بھی شاگرد جاویدغامدی نے بھی اختیار کیا ہے،لیکن ان تینوں حضرات کے تفسیر قرآن میں باہمی اختلافات سے یہ اصول غلط ثابت ہو جاتا ہے، کیونکہ نظم قرآن اگر تفسیر قرآن کا قطعی ذریعہ ہوتا تو مولانا فراہی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ)اور ان کے شاگردوں میں تفسیری اختلاف کبھی نہ ہوتا۔ ٭ حافظ محمد زبیر حفظہ اللہ ، اصلاحی صاحب رحمہ اللہ کے شاگرد جناب جاوید احمد غامدی پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’واقعہ یہ ہے کہ نظم قرآنی ہو یا قرآن کاسیاق و سباق ،عرف قرآنی ہو یا عربی معلی،یہ سب قرآن کی قرآن کے ذریعے تفسیر کے اصول نہیں ہیں بلکہ یہ قرآن کی غیر قرآن کے ذریعے تفسیرکے اصول ہیں ۔قرآن کا سیاق وسباق ،اس کا عرف ،اس کا نظم اور عربی معلی ،یہ سب غیر قرآن ہیں اور ان میں سے پہلے تین تو مفسر کا ذاتی فہم ہوتے ہیں ۔قرآن کے کتنے ہی مقامات ایسے ہیں کہ جن کی تفسیر میں غامدی صاحب نے اپنے استاذ اِمام سے اختلاف کیا تو اس اختلاف کے باوجود قرآن قطعی الدلالۃ کیسے ہو گیا؟مثال کے طور پر میں غامدی صاحب کو کہتا ہوں کہ سورۃ نور کی آیت کا سیاق و سباق اور نظم اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیت گھر کے پردے کے پارے میں ہے جیسا کہ استاذ اِمام کی بھی یہی رائے ہے تو کیا غامدی صاحب میری اس رائے کو مان لیں گے ؟۔ہر گز نہیں ، (کیونکہ غامدی صاحب کی رائے اس کے برعکس ہے)تو کیا اس پر مجھے یہ کہنا چاہیے کہ غامدی صاحب نے قرآن کا انکار کر دیا ،ہر گز نہیں ،میں نے قرآن کے عرف یا اس کے سیاق و سباق یا نظم سے جو کچھ سمجھا ہے وہ صرف میری ایک رائے ہے وہ قرآن نہیں ہے ،اس لیے مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنی رائے کو قرآن کا نام دے کر اس کو دوسروں پر مسلط کروں ۔‘‘ ۹؎ ٭ آگے چل کر ایک اور جگہ حافظ صاحب حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’غامدی صاحب کے موقف’قرآن قطعی الدلالۃ ہے‘ کا بدیہی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کی تفسیر میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے ۔جب قرآن قطعی الدلالۃ ہے تو اس کی تفسیر میں اختلاف کیوں ؟ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہو ں یا تابعین عظام رحمہم اللہ ،جلیل القدر مفسرین ہوں یا ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ ،یہ سب حضرات قرآن کی تفسیر میں اختلاف کرتے ہیں ۔۔۔اگر قرآن قطعی الدلالۃ ہے تو صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ ،اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)واِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ)اِمام رازی رحمہ اللہ و علامہ زمخشری ،اِمام طبری رحمہ اللہ (م ۳۱۰ھ)و اِمام قرطبی رحمہ اللہ ،مولاناامین احسن اصلاحی رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ) اور جاوید احمد غامدی کاقرآن کی تفسیر میں آپس میں اختلاف کیوں ہوا ؟ صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام رحمہم اللہ ، ائمہ اربعہ رحمہم اللہ ، طبری رحمہ اللہ (م ۳۱۰ھ)، قرطبی رحمہ اللہ و رازی رحمہ اللہ ، زمخشری رحمہ اللہ (م ۵۳۸ھ) وغیرہ کے بارے میں شاید غامدی صاحب یہ کہیں کہ وہ عربی معلی سے واقف نہیں تھے یا ان پر نظم قرآنی کے ذریعے تفسیر کے وہ نادر اصول ابھی تک منکشف نہیں ہوئے تھے کہ جن کی دریافت پرغامدی صاحب نے مولانافراہی (م ۱۳۴۹ ھ)و اصلاحی کو اِمام کے لقب سے نواز الیکن خود مولانا فراہی(م۱۳۴۹ھ) اور مولانا اصلاحی(م۱۴۱۸ ھ ) کے ساتھ غامدی صاحب کے تفسیر کے جو اختلافات ہوئے ان کے بارے میں وہ کیا کہیں گے؟‘‘۱۰؎ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اور جاوید غامدی کے درایتی اصول مولاناامین احسن اصلاحی (م ۱۴۱۸ ھ)نے حدیث کے رد وقبول کے لیے چھ درایتی اصول بیان کیے ہیں ۔اپنے استاد کی اتباع میں
Flag Counter