جناب غامدی صاحب نے بھی ان میں سے بعض اصولوں کو بیان کیا ہے ۔چونکہ جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور درایت میں بھی اصل کی حیثیت جناب اصلاحی صاحب کو حاصل ہے، لہٰذا ہم انہی کے نقطہ نظر کو بنیاد بنا کر اس تصور درایت پر نقد کریں گے۔ اصلاحی صاحب(م ۱۴۱۸ھ) کے ساتھ جہاں جہاں جناب غامدی نے ان کی صریح موافقت کی ہے، ہم ذکر کرتے جائیں گے۔ اصلاحی و غامدی صاحب کے اصول درایت درج ذیل ہیں : 1۔پہلا اصول ٭ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ) لکھتے ہیں : ’’حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لیے پہلی کسوٹی یہ ہے کہ کوئی روایت جس کو اہل ایمان اور اصحاب معرفت کا ذوق قبول کرنے سے اباء کرتا ہے وہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اس اصول کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رہنمائی فرمائی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: عن أبی حمید أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قال ((إذا سمعتم الحدیث عنی تعرفہ قلوبکم وتلین لہ أشعارکم وأبشارکم وترون أنہ منکم قریب فأنا أولاکم بہ۔ وإذا سمعتم الحدیث عنی تنکرہ قلوبکم تنفر منہ أشعارکم وأبشارکم و ترون أنہ منکم بعید فأنا أبعدکم منہ)) ۱۱؎ ’’ابو حمید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے منسوب کوئی ایسی روایت سنو جس سے تمہارے دل آشنائی محسوس کریں ، تمہارے رونگٹے اور تن بدن اس سے اثر پذیر ہوں اور تم دیکھو کہ وہ تمہارے دلوں سے زیادہ قریب ہے تو میں تمہارے نسبت اس کے زیادہ قریب ہوں اور جب تم مجھ سے منسوب کوئی ایسی بات سنوجس سے تمہارے دل اجنبیت محسوس کریں ،تمہارے رونگٹے اور جسم اس سے ناگواری محسوس کریں اور تم دیکھو کہ وہ تمہارے مزاج سے دور ہے تو میں تمہاری نسبت اس سے زیادہ دور ہوں ۔‘‘۱۲؎ تبصرہ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ) نے جس روایت کا تذکرہ کیا ہے اس کی صحت کے بارے میں علما کا اختلاف ہے، اگر یہ روایت صحیح ہو بھی تو اس میں ضعیف یا موضوع احادیث کو پہنچاننے علامات کا بیان ہوا ہے، جیساکہ اس روایت پر مفصل تبصرہ چھٹے باب کی دوسری فصل میں آرہا ہے۔ لہٰذا ایک ایسی روایت، جس کی صحت ہی مختلف فیہ ہو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے رد و قبول کے حوالے سے کیسے ایک اصول بن سکتی ہے ؟ اس روایت کی صحت کے حوالے سے علمائے محدثین رحمہم اللہ کے اقوال ملاحظہ ہوں : ٭ اِمام ابن قطان رحمہ اللہ (م ۶۲۸ ھ)نے الوھم والإیھام میں اس روایت کو حسن کہا ہے۔ ۱۳؎ ٭ اِمام ابن مفلح رحمہ اللہ (م ۷۶۳ ھ)نے الآداب الشرعیۃمیں اس روایت کے بارے میں فرمایا ہے: ’إسنادہ جید‘ ۱۴؎ ٭ اِمام ابن کثیر رحمہ اللہ (م ۷۷۴ ھ)نے بھی اپنی تفسیر میں ۱۵ ؎ اس کی سند کوایک جگہ: ’إسنادہ جید‘ ، جبکہ دوسری جگہ: إسنادہ صحیح۱۶؎ لکھا ہے ٭ اِمام ہیثمی رحمہ اللہ (م ۸۰۷ ھ)نے ’مجمع الزوائد میں اس کے بارے میں:رجالہ رجال الصحیح کا حکم بیان کیا ہے ۔ ۱۷؎ ٭ اِمام سیوطی رحمہ اللہ (م۹۱۱ ھ) نے النکت علی الموضوعات میں کہا ہے: ’ إسنادہ علی شرط الصحیح‘۱۸؎ ٭ اِمام الکنانی رحمہ اللہ (م ۹۶۳ھ)نے تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃمیں اس روایت کی سند کو: ’اسنادہ صحیح‘کہاہے۔ ۱۹؎ |