Maktaba Wahhabi

362 - 432
اور اس کے چند پہلو بیان نہیں کیے، جنہیں ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے اپنی روایت میں مکمل کردیا ہے، جس سے الحمد للہ واقعہ کی مکمل تصویر ہمارے سامنے آگئی۔ دیگر صحابہ کے درایتی نقد کی چند مثالیں اور ان کا جائزہ 1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما 1۔ جامع ترمذی میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کو خلاف عقل ہونے کی بناء پر قبول نہ کیا اور فرمایا: أنتوضأ من الدہن؟ أنتوضأ من الحمیم؟ قال أبو ہریرۃ: إذا سمعت عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم حدیثا فلا تضرب لہ مثلا ۳۲؎ ’’کیا ہم چکناہٹ سے وضو کریں ؟ کیا ہم گرم پانی کے استعمال سے وضو کریں ؟اس پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب تمہارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی جائے تو باتیں نہ بنایا کرو۔‘‘ اعتراض حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث پر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اِستدراک سیجدت پسندوں نے اپنے درایتی معیار کی دلیل تراشتے ہوئے کہا ہے کہ جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنے سے متعلق حدیث رسول کو بیان فرمایا تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کو خلاف قیاس قرار دیتے ہوئے رد کردیا۔ اس سے یہ اصول خود بخود اخذ ہورہا ہے کہ جب کوئی حدیث عقل وقیاس کے خلاف ہو تو اسے بلا تامل رد کردینا چاہیے۔ جب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باوجودیکہ اخذ حدیث اور عمل حدیث میں پوری امت پر فائز ہیں اور قبول حدیث میں یہ درایتی معیار قائم کررہے ہیں ، حالانکہ یہ دور بھی وہ ہے جس میں ابھی وضع حدیث کا فتنہ بھی موجود نہ تھا تو ہم نقد روایت میں اس درایتی معیار کو کیونکر بنیاد نہیں بنا سکتے جبکہ بعد زمانہ کی وجہ سے فتنہ وضع حدیث کی بناپر مجموعہ احادیث میں بے شمار رطب ویابس اکٹھا ہوگیا ہے۔ جواب ابتدائے اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے عام مسلمانوں کو یہ حکم ارشاد فرمایا تھا کہ نواقض وضو میں سے ایک ناقض آگ پر پکی ہوئی چیز کا کھانا بھی ہے۔ لہٰذا جو باوضو شخص آگ پر پکی ہوئی چیز کو کھائے گا تو اس کو دوبارہ وضو کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ایک عرصہ تک تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اسی حدیث پر عمل رہا اور وہ جب بھی آگ پر پکی ہوئی چیز کو کھاتے تو بعد میں نماز وغیرہ کے لیے نیا وضو بنا لیا کرتے تھے۔ جیسا کہ بعض روایات میں اس کی طرف اشارہ ملتا ہے۔۳۳؎ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی منسوخیت لیکن بعد میں دیگر کئی اسلامی احکام کی طرح کسی خاص مصلحت کی بنیاد پر اس ابتدائی حکم کو بھی منسوخ کر دیا گیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ سے اس بات پر مہر تصدیق ثبت فرما دی کہ اب وہ پرانا حکم باقی نہیں رہا اور منسوخ ہوچکا ہے اور اس کی جگہ ایک
Flag Counter