٭ ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: علم الإسناد مما خص اللّٰہ بہ أمۃ محمد صلي اللّٰه عليه وسلم وجعلہ سلما إلی الدرایۃ فأھل الکتاب لا إسناد لھم ۳۳؎ ’’اِسناد وروایت کا علم ایسی خصوصیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف امت ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت فرمائی ہے ، اسے درایت کے لیے سیڑھی بنایا ہے اور اہل کتاب کے پاس کوئی اِسناد نہیں ۔ ‘‘ اِسناد حدیث کی تحقیق کے اصولوں کو ہم چار مباحث کے تحت بیان کریں گے: ٭ راوی کا کردار ( عدالت) ٭ راوی کی صلاحیت ( ضبط) ٭ اتصال سند ٭ سند کا علت وشذوذ سے خالی ہونا بحث اول: راوی کا کردار (عدالت) کسی بھی حدیث کے صحیح ہونے کے لیے محدثین رحمہم اللہ کی مقرر کردہ اساسی شرائط میں سے ایک عدالت اور دوسری ضبط ہے ۔ متقدم محدثین رحمہم اللہ نے ان شرائط کی طرف اشارہ تو کیا تھا مگر ان کے نام متعین نہیں کیے تھے، جیسا کہ ٭ اِمام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ (م ۱۶۰ ھ) سے جب دریافت کیا گیا کہ کس شخص کی روایت کو ترک کر دینا چاہیے، تو انہوں نے فرمایا: 1۔ جب کوئی معروف لوگوں سے ایسی حدیث بیان کرے جسے معروف لوگ نہ جانتے ہوں تو اس کی حدیث ترک کر دی جائے ۔ 2۔ جس پر حدیث کے بارے میں کوئی تہمت لگی ہو اس کی حدیث ترک کر دی جائے ۔ 3۔ جب کوئی بکثرت غلطیاں کرے تو اس کی حدیث ترک کر دی جائے ۔ 4۔ جب کوئی ایسی حدیث روایت کرے جس کے غلط ہونے پر اتفاق ہو تو اس کی روایت ترک کر دی جائے ۔ ان کے علاوہ جو لوگ ہوں ان کی روایت قبول کر لینی چاہیے ۔‘‘۳۴؎ ٭ اِمام ابن مہدی رحمہ اللہ (م ۱۹۸ ھ) نے فرمایا کہ تین آدمیوں سے حدیث نہ لی جائے : 1۔ جس پر جھوٹ کی تہمت ہو ۔ 2۔ ایسا بدعتی جواپنی بدعت کی طرف دعوت دے ۔ 3 ایسا شخص جس پر وہم اور غلطی غالب ہو ۔‘‘ ۳۵؎ ٭ اِمام ابن مبارک رحمہ اللہ (م ۱۸۱ ھ) نے فرمایا کہ چار آدمیوں سے حدیث نقل نہ کی جائے : 1۔ بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا جو رجوع نہ کرے ۔ 2۔ بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا ۔ 3۔ بدعتی جو اپنی بدعت کی طرف بلائے ۔ 4۔ ایسا شخص جو حدیث حفظ نہ کرے مگر اپنے حافظے سے حدیث بیان کرے ۔‘‘ ۳۶؎ ٭ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ) نے فرمایا کہ چار طرح کے آدمیوں سے علم (حدیث) حاصل کرنا جائز نہیں : 1۔ بیوقوف ، جس کی بے وقوفی ظاہر ہو خواہ وہ بہت زیادہ روایت کرنے والا ہی ہو ۔ |