Maktaba Wahhabi

321 - 432
مولانا شبلی رحمہ اللہ کے درایتی اصول مولانا شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) نے حضرت اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)کے حالات زندگی پر ایک کتاب سیرت النعمان کے نام سے لکھی، جو کہ علمائے احناف کے حلقے میں بہت معروف ہوئی۔ اس کتاب میں مولانا نے احادیث کی جانچ پڑتال کے بعض اصول بیان کیے ہیں اور ان کی نسبت اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)کی طرف بھی کی ہے۔ ٭ مولاناشبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ)اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)کی بطور ’اِمام اہل الرائے‘ شہرت کے اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اس شہرت کی ایک اوروجہ یہ ہوئی کہ عام محدثین کرام رحمہم اللہ حدیث و روایت میں درایت سے بالکل کام نہ لیتے تھے اور اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) نے اس کی اتباع کی اور اس کے اصول و قواعد منضبط کیے۔انہوں نے بہت سی حدیثیں اس بنا پر قبول نہ کیں کہ اصول درایت کے موافق ثابت نہ تھیں ۔ اس لیے اس لقب کو زیادہ شہرت ہوئی کیونکہ درایت اور رائے مترادف سے الفاظ ہیں ۔‘‘۱؎ مولانا شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ)کی یہ بات کسی طور پر درست نہیں ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ تحقیق حدیث میں نقد متن کو مدنظر نہیں رکھتے تھے۔ ٭ مولانامحمد عبدالعزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۸ ھ)لکھتے ہیں : ’’حنفیوں نے قرأۃ فاتحہ خلف الاِمام کے بارے میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ قول پیش کیاہے کہ جو کوئی اِمام کے پیچھے فاتحہ پڑھے اس کے منہ نجاست یا آگ بھر دی جائے۔اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ)نے’جزء قرأت‘ میں اس روایت کو علاوہ اصول روایت کے اصول درایت پر بھی جانچا ہے، یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کا اِمام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا ثابت ہے، جس میں کلام نہیں اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ یہ نہ تھا کہ اگر کسی مسئلے میں مختلف ہوتے تو کلمات زشت منہ سے نکالتے، بلکہ یوں کہا کرتے تھے کہ خدا رحم کرے، فلاں ایسانہیں ہے بلکہ یوں ہے۔ ایسی حالت میں خلاف عقل ہے یہ بات کہ باوجود علم اس بات کے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قراء ت خلف الاِمام کرتے تھے کوئی صحابی رضی اللہ عنہ کیوں کر اس طرح کہے گاکہ ان کے منہ میں نجاست بھر دی جائے یا آگ بھر دی جائے۔ دوسرے ایسے کلمات خلاف تہذیب صحابہ رضی اللہ عنہم کے منہ سے نکلنے محض خلاف عقل ہے۔‘‘ ۲؎ پس ثابت یہ ہوا کہ ائمہ محدثین رحمہم اللہ تحقیق حدیث میں ’سند‘کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ متن کی تحقیق کے اصولوں کو بھی مدنظر رکھتے تھے۔ محدثین کرام رحمہم اللہ کا یہ اصول کہ ’اثبات نفی پر مبنی ہے ‘ ایک درایتی اصول ہے، کیونکہ نفی کو سہو پر محمول کیا جا سکتا ہے لیکن اثبات میں سوائے کذب کے کوئی احتمال نہیں ہوتا۔ اسی اصول کی بناء پر محدثین کرام رحمہم اللہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی عدم رفع الیدین کی روایات کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی رفع الیدین کے اثبات کی احادیث کی وجہ سے سہو پر محمول کیا ہے،کیونکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بھول جانا خلاف عقل نہیں ہے لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک کثیرجماعت کا جھوٹ بولنا خلاف عقل ہے ۔ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)اگر تحقیق حدیث میں ’درایت‘ کو بھی ملحوظ رکھتے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت کبھی بھی قبول نہ کرتے۔واقعہ یہ ہے کہ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)نے ’درایت حدیث‘ کے کوئی اصول وضع نہیں کیے۔ درحقیقت یہ تمام اصول مولانا شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ)نے متاخر علمائے احناف کی کتب سے اخذ کرکے ان کی نسبت اِمام صاحب رحمہ اللہ کی طرف بغیر کسی حوالہ
Flag Counter