Maktaba Wahhabi

324 - 432
دیکھیں بحث: وجمیع ما صح عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم من الشرع کلہ حق صفحہ: ۳۹۵ دیکھیں بحث: وہو مستغن عن العرش وما دونہ، محیط بکل شیٔ وفوقہ صفحہ: ۳۲۳ ٭ مختلف نصوص شرعی میں کبھی بھی تعارض نہیں ہوتا، اختلاف علماء کی صورت میں حکم کتاب اللہ ہوگی: دیکھیں بحث: وجمیع ما صح عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم من الشرع کلہ حق صفحہ: ۳۹۵ 2۔ دوسرا اصول ٭ مولانا شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ)لکھتے ہیں : ’’جو واقعات تمام لوگوں کو رات دن پیش آیا کرتے ہیں ان کے متعلق اگر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے کوئی ایسی روایت منقول ہو جو اخبار آحاد کے درجہ سے زیادہ نہ ہوتو وہ روایت مشتبہ ہوگی۔یہ اصول اس بنا پر ہے کہ جو واقعات تمام لوگوں کو پیش آیا کرتے تھے ان کے متعلق جو کچھ آنحضرت کا ارشاد تھا اس کی ضرورت تمام لوگوں سے متعلق رہتی تھی اس لیے صرف ایک آدھ شخص تک اس روایت کا محدود رہنا درایت کے خلاف ہے۔‘‘۵؎ تبصرہ مولانا نے یہ اصول احناف کے عموم بلوی کے تصور سے اَخذ کیاہے ۔ علمائے احناف کا اصول یہ ہے کہ عموم بلوی سے متعلق خبر واحد قبول نہیں کی جائیگی اور زیر بحث مسئلے میں قیاس کیاجائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ عموم بلوی کی صورت میں حنفیہ کا قیاس کو خبر پر ترجیح دینا بھی ایک غیر معقول فعل ہے۔ علمائے احناف کا یہ اصول کیسے درست ہو سکتا ہے جبکہ وہ خود اپنے اس اصول کو توڑنے میں سب سے پیش پیش ہوں ۔ مثلا فقہائے احناف رحمہم اللہ نماز میں قہقہ لگانے اور نکسیر پھوٹنے سے ایجاب ِ وضو کے قائل ہیں اور یہ مسئلہ عموم بلوی سے متعلق ہونے کے باوجود خبر واحد سے ہی ثابت ہوتا ہے اور خبر واحد بھی ایسی جو کہ محدثین رحمہم اللہ کے اصولوں کے مطابق صحیح حد یث کے درجے کو نہ پہنچتی ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ عموم بلوی سے متعلق جتنی بھی اخبار آحاد ہیں ان پر صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں عمل ہوتا رہا ہے۔اس سلسلہ میں کافی تفصیل تیسرے باب میں گذر چکی ہے۔ مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کے درایتی اصول مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ) ، مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ)کے ماموں زاد بھائی تھے اور انہوں نے عربی زبان کی تحصیل زیادہ تر مولانا شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ)ہی سے کی تھی۔یہی وجہ ہے کہ مولانا شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ)کے درایتی افکار و نظریات مولانا فراہی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ)میں بھی سرایت کر گئے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ) کے ہاں حدیث کی جانچ پڑتال کے باقاعدہ کوئی درایتی اصول تو نہیں ملتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ)نے اپنی زندگی میں زیادہ توجہ قرآن اور اس سے متعلقہ علوم کی خدمت میں صرف کی ہے۔ لہٰذامولانا نے تفسیر قرآن میں حدیث کو بنیادی ماخذ شمار نہیں کیا۔ ٭ مولانا فراہی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ)’تفسیر کے خبری ماخذ‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں : ’’بعض ماخذ اصل و اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض فرع کی ۔اصل و اساس کی حیثیت تو صرف قرآن کو حاصل ہے ۔اس کے سوا
Flag Counter