کسی چیز کویہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔۔۔پس جو شخص قرآن مجید کو سمجھنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ روایات کے ذخیرہ میں سے ان روایات کو نہ لے جو اصل کو ڈھانے والی ہوں ۔بعض روایتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کی تاویل نہ کی جائے تو ان کی زد براہ راست اصل پر پڑ تی ہے اور ان سے سلسلہ نظم درہم برہم ہوتا ہے ۔لیکن تعجب کی بات ہے کہ بہت سے لوگ آیت کی تاویل تو کر ڈالتے ہیں لیکن روایت کی تاویل کی جرأت نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات تو صرف آیت کی تاویل ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ اس کے نظام کی بھی قطع و برید کر ڈالتے ہیں ۔حالانکہ جب اصل و فرع میں تعارض ہو تو کاٹنے کی چیز فرع ہے نہ کہ اصل۔۔۔اور سب سے زیادہ تعجب ان لوگوں پر ہے جو ایسی روایتیں تک قبول کر لیتے ہیں جو نصوص قرآن کی تکذیب کرتی ہیں ۔مثلا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جھوٹ بولنے کی روایت‘ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وحی قرآن پڑھنے کی روایت۔اس طرح کی روایات کے بارہ میں ہم کو نہایت محتاط ہوناچاہیے۔صرف وہ روایتیں قبول کرنی چاہئیں جو قرآن کی تصدیق و تائید کریں ۔‘‘۶؎ جب کوئی خبر ثابت ہو جائے تو اصول شریعت میں سے ایک اصل بن جاتی ہے اور کسی دوسری اصل پر پیش کرنے کی محتاج نہیں ہوتی۔لہٰذا جب ایک ایک خبرمحدثین کرام رحمہم اللہ کے اصول حدیث کے مطابق صحیح قرار پائے تو اب خود ایک اصل کی حیثیت رکھتی ہے، لہٰذا اس کو کسی دوسری نص شرعی مثلا قرآن پر پیش کرنا جائز نہیں ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ!قرآن کی مخالفت کرنے نہیں آئے تھے بلکہ آپ کا اصل فریضہ تو قرآن کی تبیینہے۔ جب ایک روایت از روئے تحقیق ثابت ہو جائے تو وہ کبھی بھی قرآن کے مخالف نہیں ہو سکتی۔ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص اپنی کم فہمی کی وجہ سے کسی صحیح روایت کو قرآن کے مخالف پائے، لیکن اس میں روایت کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ اس شخص میں اتنی صلاحیت اور قابلیت نہیں ہے کہ وہ حدیث اور قرآن کے ظاہری تضاد کو دور کر سکے۔ ٭ مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ (م ۱۳۹۶ ھ)نے بعض متجددین کا رد کرتے ہوئے بڑی عمدہ بات ارشاد فرمائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ علمائے امت نے تمام ذخیرہ احادیث میں اپنی عمریں صرف کر کے ایک ایک حدیث کو چھان لیا ہے ۔جس حدیث کا ثبوت قوی اور صحیح اسانید سے ہو گیا ان میں ایک بھی ایسی نہیں ہو سکتی کہ جس کو قرآن کے خلاف کہا جا سکے بلکہ وہ اپنی کم فہمی یا کج فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جس حدیث کو رد یا باطل کرنا چاہا اس کو قرآن سے ٹکرا دیااور یہ کہہ کر فارغ ہو گئے کہ یہ حدیث خلاف قرآن ہونے کے سبب سے غیر معتبر ہے ۔‘‘۷؎ قرآن میں بھی بعض اَوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک آیت دوسری آیت کی مخالفت کر رہی ہے، تو اس وقت مولانا فراہی(م ۱۳۴۹ ھ) کبھی بھی یہ نہیں کہیں گے کہ ایک آیت کو رد کر کے دوسری آیت کو قبول کر لو، بلکہ ان کی انتہائی کوشش یہ ہو گی کہ ان دونوں آیات میں معنوی تطبیق پیدا کریں ۔ علمائے محدثین رحمہم اللہ کا منہج بھی یہی ہے کہ جب ان کو کوئی صحیح روایت قرآن کریم کی کسی آیت سے بظاہر متضاد نظر آتی ہے، تو وہ اس روایت کو رد نہیں کرتے بلکہ آیت اور اس حدیث کے مفہوم میں ایسی تطبیق پیدا کرتے ہیں کہ جس سے یہ ظاہری تضاد رفع ہو جاتا ہے۔ محدثین کرام رحمہم اللہ نے ایسی تمام صحیح ر وایات، جن کے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا تھا کہ یہ قرآن کے خلاف ہیں ، کو قرآن کرام کے مطابق کر کے دکھایا ہے اور اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ لہذا یہ نظریہ کہ کوئی صحیح روایت اگر قرآن کے خلاف ہو تو اس کو رد کر دیا جائے گا، ایک ایسا اصول ہے کہ جس کی کوئی عملی مثال موجود نہیں ہے۔ مولانافراہی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ) نظم قرآن کے ذریعے تفسیر کو تفسیر ِ قرآن کا قطعی ذریعہ قرار دیتے ہیں ۔مولانا کے کلام میں اس بات کی طرف واضح اشارہ موجود ہے کہ جب کوئی حدیث ، نظم قرآن کے خلاف ہو تو اس حدیث کو رد کر دینا چاہیے۔ ٭ مولانافراہی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ)لکھتے ہیں : ’’بعض روایتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کی تاویل نہ کی جائے تو ان کی زد براہ راست اصل پڑ تی ہے اور ان سے سلسلہ نظم درہم برہم ہوتا |