Maktaba Wahhabi

104 - 432
بحث ثانی: راوی کی صلاحیت (ضبط) ضبط کا معنی ومفہوم لغوی مفہوم لفظ ضبط مصدر ہے باب ضَبَطَ یَضْبِط بروزن ضرب سے ، اس کا معنی ہے مضبوطی سے پکڑنا ، گرفتار کرنا ، درست کرنا ، پختہ طور پر کسی چیز کو حفظ کرنا وغیرہ ۔ ٭ اِمام خلیل بن احمد رحمہ اللہ (م ۱۷۵ ھ) نے اس کا معنی یوں بیان کیا ہے : الضبط:لزوم شیء لا یفارقہ فی کل شیء ، ورجل ضابط:شدید البطش والقوۃ والجسم۱۰۷ ؎ ’’ضبط کسی چیز کا ایسا لزوم ہے جو کسی چیز میں بھی اس سے جدا نہ ہو اور ضابط آدمی وہ ہے جو پکڑ ، قوت اور جسم میں سخت ہو۔ ‘‘ ٭ صاحب ِقاموس رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ضبطہ کا معنی ہے: حفظہ بالجزم یعنی اس نے پختگی کے ساتھ اسے حفظ کر لیا ۔ ‘‘ ۱۰۸ ؎ اصطلاحی مفہوم محدثین کرام رحمہم اللہ کی اصطلاح میں ضبط یہ ہے کہ راوی حدیث کو سنے ، اس کے معانی خوب سمجھے اور اسے اس طرح حفظ کر لے کہ اسے کسی قسم کا کوئی شک باقی نہ رہے اور حدیث سننے سے آگے بیان کرنے تک اس کی یہی کیفیت رہے ۔ بالفاظ ِدیگر ضبط دو چیزوں کا نام ہے : 1۔ قوت ِحافظہ 2۔ غوروفکر اور دقت ِنظر ۔۱۰۹ ؎ یہاں ’’غور وفکر اور دقت نظر‘‘ سے مراد تحمل وضبط ِواقعہ میں راوی کی واقعہ فہمی کی دقت نظر مراد ہے، جیساکہ چھٹے باب کی پہلی فصل میں اس کی وضاحت آئے گی۔ ان شاء اللہ جبکہ استنباط حدیث یا فہم ِروایہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے بجائے فقہاء کرام رحمہم اللہ کا موضوع ہے، جیساکہ اس کی وضاحت چوتھے باب کی پہلی فصل میں اور پہلے باب کی فصل ثالث میں مذکور ہے۔ یاد رہے کہ ضابط راوی بہت زیادہ غلطیاں نہیں کرتا، اس کی یادداشت خراب نہیں ہوتی، وہ غفلت کا شکار نہیں ہوتا، بہت زیادہ اوہام میں مبتلا نہیں ہوتا اور نہ ہی قابل اعتماد راویوں کی مخالفت کرتا ہے ۔ ٭ اہل علم ضبط کو دو انواع میں تقسیم کرتے ہیں : 1۔ ضبط ِصدر 2۔ ضبط ِکتابت ضبط ِصدر کی تعریف میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) نے فرمایا ہے: وھو أن یثبت ما سمعہ بحیث یتمکن من استحضارہ متی شاء ۱۱۰ ؎ ’’ضبط ِصدر یہ ہے کہ راوی نے جو کچھ سنا ہے اسے اس قدر پختہ ہو جائے کہ وہ جب چاہے اسے ادا کر سکے ۔ ‘‘ اور موصوف ضبط ِکتابت کی تعریف میں فرماتے ہیں: وھو صیانتہ لدیہ منذ سمع فیہ وصححہ إلی أن یؤدی منہ ۱۱۰ ؎
Flag Counter