’’ ضبط ِکتابت یہ ہے کہ راوی حدیث کا سماع کرنے اور اسے درست کرنے کے بعد اپنے پاس تحریری طور پر محفوظ کر لے ، حتی کہ اس سے آگے بیان کر دے ۔ ‘‘ ٭ قبولِ حدیث کے لیے راوی کا ضابط ہونا ضروری ہے ، اگر راوی ضابط نہ ہو تو اس کی روایت قابل قبول نہیں ہوتی۔ ٭ اِمام سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ ھ) رقمطراز ہیں : وعلی کل حال فاشتراطہ فی الصحیح لا بد منہ ۱۱۱ ؎ ’’ بہرحال صحیح حدیث کے لیے ضبط کی شرط ضروری ہے ۔ ‘‘ ضبط معلوم کرنے کا طریقہ راوی کا ضبط معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی روایات کا دیگر حفظ وضبط میں معروف ثقہ راویوں کی روایات کے ساتھ موازنہ کیا جائے ، اگر تو اس کی روایات اغلباً ان معتبر رواۃ کی روایات کے مطابق ہوں ’خواہ معنوی اعتبار سے ہی مطابق ہوں اور الفاظ مختلف ہوں ‘ تو اسے ضابط ہی قرار دیا جائے گا ، تھوڑی بہت مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں ، لیکن اگر یہ کثرت سے دیگر ثقہ رواۃ کی مخالفت کرے تو پھر یہ سمجھا جائے گا کہ اس کے ضبط میں خلل ہے اور اس کی روایات کو رد کر دیا جائے گا ۔ ٭ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ ھ) نے ضبط ِراوی کی معرفت کا یہی طریقہ نقل فرمایا ہے ، ان کے الفاظ یہ ہیں : یعرف کون الراوی ضابطا بأن نعتبر روایاتہ بروایات الثقات المعروفین بالضبط والاتقان ، فان وجدنا روایاتہ موافقۃ ولو من حیث المعنی لروایاتھم أو موافقۃ لھا فی الاغلب،والمخالفۃ نادرۃ عرفنا حینئذ کونہ ضابطا ثبتا ، وان وجدنا کثیر المخالفۃ لھم عرفنا اختلال ضبطہ ولم نحتج بحدیثہ ۱۱۲ ؎ حفظ وضبط کو پرکھنے کے لیے دیگر رواۃ واسانید سے مقابلہ کرنے کے آثار متقدمین سے بھی ملتے ہیں ۔ ٭ اَیوب سختیانی رحمہ اللہ (م ۱۳۱ ھ) ،جو کہ صغار تابعین رحمہم اللہ میں سے ہیں ، کا قول ہے: إذا أردت أن تعرف خطأ معلمک فجالس غیرہ۱۱۳ ؎ ’’جب تم اپنے استاد کی غلطی جاننا چاہو تو اس کے علاوہ کسی اور شیخ کی مجلس میں بیٹھو ۔ ‘‘ ٭ اِمام اَحمد بن حنبل رحمہ اللہ (م ۲۴۱ ھ) نے فرمایا ہے: الحدیث اذا لم تجمع طرقہ لم تفھمہ والحدیث یفسر بعضہ بعضا۱۱۴ ؎ ’’تم جب تک حدیث کی تمام اِسناد جمع نہ کرو اسے سمجھ نہیں سکتے اور حدیث کا ایک حصہ دوسرے کی تفسیر کرتا ہے ۔ ‘‘ ضبط میں قوت وضعف کے اعتبار سے مقبول روایت کی تقسیم ضبط میں کمی بیشی کے اعتبار سے مقبول روایت کو چار انواع میں تقسیم کیا گیا ہے : 1۔ صحیح لذاتہ: جس خبر کے راوی عادل اور کامل الضبط ہوں ، اس کی سند متصل اور علت وشذوذ سے محفوظ ہو۔ ۱۱۵ ؎ 2۔ حسن لذاتہ:جس خبر میں راوی کا ضبط خفیف ہو، مگر باقی تمام شروط ِصحیح موجود ہوں ۔ ۱۱۵ ؎ 3۔ صحیح لغیرہ: جو خبر حسن لذاتہ کے درجہ کی ہو یعنی اس کے راوی خفیف الضبط ہو، مگر تعدد ِطرق کی وجہ سے اس روایت کو کامل الضبط والے راوی کی روایت کا درجہ مل جائے۔ ۱۱۵ ؎ |