Maktaba Wahhabi

106 - 432
حسن لغیرہ: وہ روایت جو راوی کے ضبط کی وجہ سے ضعیف ہو، باقی شرائط پوری پائی جائیں ، لیکن تعدد طرق کی وجہ سے روایت کو خفیف الضبط والے راوی کی روایت کا درجہ مل جائے۔ ۱۱۵ ؎ ٭ صحیح لذاتہ کی مثال: یہ روایت ہے : حدثنا عبد اللّٰہ بن یوسف قال أخبرنا مالک عن ابن شھاب عن محمد بن جبیر بن مطعم عن أبیہ قال سمعت رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قرأ فی المغرب بالطور ۱۱۶ ؎ ’’یعنی جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورۂ طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ۔ ‘‘ اس روایت میں چونکہ تمام شروط ِصحیح یعنی اتصالِ سند ، عدالت ِرواۃ ، ضبط ِرواۃ ، عدمِ علت اور عدمِ شذوذ موجود ہیں اس لیے اس کا درجہ صحیح لذاتہ ہے ۔ ایسی روایت تمام ائمہ وفقہا کے نزدیک واجب العمل اور شرعاً دلیل وحجت ہے ۔ ٭ حسن لذاتہ کی مثال: یہ روایت ہے : حدثنا قتیبۃ حدثنا جعفر بن سلیمان الضبعی عن أبی عمران الجونی عن أبی بکر بن أبی موسی الأشعری قال سمعت أبی بحضرۃ الحدو یقول قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ((ان أبواب الجنۃ تحت ظلال السیوف)) ’’رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہے ۔ ‘‘ ۱۱۷ ؎ یہ روایت نقل کرنے کے بعد اِمام ترمذی رحمہ اللہ (م ۲۷۹ ھ) نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسے حسن اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ اس کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے جعفر بن سلیمان (م ۱۷۸ ھ) کے ، اسے ائمہ نقد نے صدوق کا درجہ دیا ہے ۱۱۸ ؎ جو اس کے خفیف الضبط ہونے کی علامت ہے اور اس کے خفیف الضبط ہونے کی بنا پر ہی اسے حسن لذاتہ قرار دیا گیا ہے ۔ حسن لذاتہ روایت بھی حجیت میں صحیح کی مانند ہی ہوتی ہے اگرچہ اس کا مرتبہ صحیح لذاتہ سے کم تر ہوتا ہے ۔ ٭ صحیح لغیرہ کی مثال: یہ حدیث ہے: حدثنا أبو کریب حدثنا عبدۃ بن سلیمان عن محمد بن عمرو عن أبی سلمۃ عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم (( لولا أن أشق علی أمتی لأمرتھم بالسواک عند کل صلاۃ)) ۱۱۹ ؎ ’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ میں اپنی امت پر مشقت ڈال دوں گا تو میں انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دے دیتا ۔ ‘‘ اس روایت کی سندمیں محمد بن عمرو بن علقمہ(م ۱۴۴ھ) راوی حفظ وضبط میں کمزور ہے حتی کہ بعض اہل علم نے تو سوء حفظ کی وجہ سے اسے ضعیف بھی کہا ہے جبکہ بعض نے اس کے صدق وجلالت کی بنا پر اس کی توثیق بھی کی ہے ، اس لحاظ سے اس کی حدیث حسن ہوئی ۔ پھر جب اس حدیث کے ساتھ مزید دوسری اسانید بھی مل گئیں تو وہ خدشہ زائل ہو گیا جو اس راوی کے سوء حفظ کی بنا پر پیدا ہوا تھا اور اس کی معمولی کمی بھی پوری ہو گئی ، لہٰذا یہ سند صحیح قرار پائی اور صحیح کے درجہ تک پہنچ گئی ، جیسا کہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ ھ)نے نقل فرمایا ہے ۔۱۲۰ ؎ ٭ حسن لغیرہ کی مثال: یہ حدیث ہے : حدثنا محمد بن بشار حدثنا یحیی بن سعید وعبد الرحمن بن مھدی ومحمد بن جعفر قالوا حدثنا شعبۃ عن عاصم بن عبید اللّٰہ قال سمعت عبد اللّٰہ بن عامر بن ربیعۃ عن أبیہ أن امرأۃ من بنی فزارۃ تزوجت
Flag Counter