علی نعلین فقال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم أرضیت من نفسک ومالک بنعلین قالت نعم ، قال:فأجازہ ۱۲۱ ؎ ’’یعنی ایک عورت نے ایک جوڑا جوتے حق مہر کے عوض نکاح کر لیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تم اس پر دلی طور پر راضی ہو ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے اس نکاح کو جائز قرار دے دیا ۔ ‘‘ اس کی سندمیں عاصم بن عبید اللہ (م ۱۳۲ ھ) راوی جمہور کی رائے کے مطابق ضعیف ہے ۔۱۲۲ ؎ لیکن پھر بھی اِمام ترمذی رحمہ اللہ (م۲۷۹ھ)نے اسے حسن کہا ہے، کیونکہ مہر کے سلسلے میں دیگر سندوں سے بھی روایات مروی ہیں جیسا کہ اِمام ترمذی رحمہ اللہ (م ۲۷۹ ھ) نے خود ان کا ذکر فرمایا ہے ۔ لہٰذا اس ضعیف روایت کو تعدد ِ طرق کی بنا پر حسن کا درجہ دے دیا گیا ۔ ایسی حسن روایت کو حسن لغیرہ کہا جاتا ہے اور یہ بھی قابل حجت ہی شمار کی جاتی ہے ۔ ضبط ختم کرنے والے اُمور پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے کہ صحت ِحدیث کے لیے جہاں راوی کا عادل ہونا ضروری ہے وہاں ضابط ہونا بھی شرط ہے اور اگر وہ ضابط نہ ہو تو اس کی روایت مردود ٹھہرتی ہے ۔ راوی کے ضبط کو مجروح کرنے والی اشیاء یہ ہیں : 1۔ فاش غلطی 2۔ سوء حفظ 3۔ غفلت 4۔ کثرت ِاوہام 5۔ مخالفت ِثقات ان تمام کا مختصر بیان آئندہ سطور میں پیش خدمت ہے ۔ 1۔ فاش غلطی اس سے مراد یہ ہے کہ راوی ایسی بڑی غلطی کرے کہ ناقابل برداشت ہو۔ ایسے راوی کو محدثین کرام رحمہم اللہ نے مجروح قرار دیا ہے۔ ٭ اِمام ابن حبان رحمہ اللہ (م ۳۵۴ ھ) نے فرمایا ہے: من کثُر خطؤہ وفحش وکاد أن یقلب صوابہ فاستحق الترک من أجلہ وان کان ثقۃ فی نفسہ،صدوقا فی روایتہ ، لأن العدل اذا ظھر علیہ أکثر من أمارات الجرح استحق الترک۱۲۳ ؎ ’’جس راوی کی غلطیاں حد سے زیادہ بڑھ جائیں ، وہ فاش اخطاء کرے اور درستگی سے پھر جانے کے قریب ہو تو اس وجہ سے وہ ترک کیے جانے کا مستحق ہے، اگرچہ وہ بذات ِخود ثقہ اور اپنی روایت میں سچا ہی ہو کیونکہ جب عدل پر جرح کی علامات زیادہ ظاہر ہو جائیں تو وہ ترک کا مستحق بن جاتا ہے۔‘‘ ٭ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ)کا قول ہے : ’’جس محدث کی غلطیاں فاش ہوں اور اس کے پاس کتاب کی اصل بھی صحیح طور پر موجود نہ ہو تو ہم اس کی حدیث قبول نہیں کریں گے، جیسا کہ اگر کوئی گواہی میں بکثرت غلطیاں کرے تو ہم اس کی گواہی قبول نہیں کرتے ۔ ‘‘۱۲۴ ؎ ٭ اِمام ابن مہدی رحمہ اللہ (م ۱۹۸ ھ) نے فرمایا ہے: ’’آدمی کی حدیث اس وقت قابل قبول نہیں ہوتی جب وہ متہم بالکذب ہو یا اس پرغلطیوں کا غلبہ ہو ۔ ’’۱۲۵ ؎ ٭ اِمام ثوری رحمہ اللہ (م ۱۶۱ ھ) کا ایک قول یہ ہے: ’’ اگر راوی پر غلطیوں کا غلبہ ہو تو اسے ترک کر دیا جائے گا ۔ ‘‘ ۱۲۶ ؎ |