Maktaba Wahhabi

108 - 432
٭ فاش غلطی کرنے والا راوی غیر ضابط قرار پاتا ہے اور اس کی حدیث کو محدثین کرام رحمہم اللہ منکر قرار دیتے ہیں جو مردود کی ایک قسم ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)نے فرمایا ہے: فمن فحش غلطہ أو کثرت غفلتہ أو ظھر فسقہ فحدیثہ منکر۱۲۷ ؎ ’’جو فاش غلطی کرے یا بکثرت غفلت کا شکار ہو یا اس کا فسق ظاہر ہو جائے تو اس کی حدیث منکر ہے ۔ ‘‘ 2۔ سوء ِحفظ اس سے مراد راوی کے حافظہ ویادداشت کی خرابی ہے ۔ جس راوی میں یہ وصف پایا جائے اسے سییٔ الحفظ کہا جاتا ہے ۔ محدثین کرام رحمہم اللہ اس راوی کی تعریف یوں کرتے ہیں : ’’جسراوی کی جانب ِصواب کو جانب ِخطا پر ترجیح نہ دی جا سکے، اسے سییٔ الحفظ کہا جاتا ہے ۔ ‘‘ ۱۲۸ ؎ ٭ اہل علم نے سوء الحفظ کی دو قسمیں بنائی ہیں: 1۔ سوء ِحفظ اصلی: اس کے حافظہ کی خرابی پیدائشی ہو اور ہر حال میں اس کی کیفیت ایک جیسی ہو۔ ایسے روایت کو کچھ محدثین کرام رحمہم اللہ ’شاذ‘ کا نام دیتے ہیں ۔ اس قسم کے راوی کی روایت کا حکم یہ ہے کہ وہ مردود ہوتی ہے ۔ ٭ علامہ ابن الوزیر رحمہ اللہ (م ۸۴۰ ھ) نے فرمایا ہے: ’’بعض اوقات حدیث برے حافظہ کی وجہ سے رد کر دی جاتی ہے ، اگر یہ وصف راوی کے ساتھ ہرحال میں قائم ہو تو وہ ضعیف ہے ۔ ‘‘ ۱۲۹ ؎ 2۔ سوئِ حفظ طاری: کسی اتفاقی سبب کی بنا پر اس کا حافظہ خراب ہو گیا ہو جیسے نابینا ہوجانے ، عمررسیدہ ہو جانے یا کتابوں کے ضائع ہو جانے وغیرہ کی وجہ سے ۔ ایسے راوی کومختلط کا نام دیا گیا ہے ۔ اس قسم کے راوی کی احادیث کو دیکھا جاتا ہے اور اختلاط سے پہلے کی روایات کو قبول اور اختلاط سے بعد کی روایات کو ناقابل قبول قرار دیا جاتا ہے اور جن میں یہ تمیز نہ ہو سکے ان میں توقف اختیار کیا جائے گا ۔ ۱۳۰ ؎ 3۔ کثرت غفلت اسے اہل علم نے دو انواع میں تقسیم کیا ہے : 1۔ غفلت مطلق:یعنی راوی مطلقاً اس قدر غفلت کا شکار ہو کہ وہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر سکے ۔ اگر کوئی اسے کہے کہ تمہاری تحریر میں فلاں غلطی ہے تو وہ فوراً اسے تسلیم کر کے اپنی تصحیح کر لے ، اسے یہ سمجھ ہی نہ ہو کہ پہلے لکھے ہوئے اور بعد والے میں کیا فرق ہے ۔ اس معنی میں یہ فاحش الغلط کے قریب ہے اور اس کی روایت قابل قبول نہیں ۔ ۱۳۱ ؎ 2۔ غفلت مخصوص: یعنی خاص اوقات واحوال میں راوی غفلت وتساہل کا شکار ہو جیسے حدیث سنتے وقت نیند سے بچنے کا اہتمام نہ کرنا اور حدیث بیان کرتے وقت کسی ایسی تحریر سے ہی بیان کر دینا جس کا اصل نسخہ سے تقابل نہ کیا گیا ہو وغیرہ ۔ ایسی حالت میں اس کی سنی ہوئی یا بیان کی ہوئی حدیث رد کر دی جائے گی ۔ ٭ اِمام سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ ھ) نے نقل فرمایا ہے کہ اس کی مثال راوی قرہ بن عبد الرحمن (م ۱۴۷ ھ) ہے ، یحییٰ بن معین رحمہ اللہ
Flag Counter